کوثر کون ہے۔۔۔۔۔ ؟ یہ کیسا سوال ہے میاں۔ کیا ہم نے آپ کو نہیں بتایا تھا کہ اُس مہ جبین پری کا نام کوثر ہے بابا وقاص نے مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا عمران بابا کی خفگی پر سٹپٹا گیا۔ بات سنبھالتے ہوئے کہنے لگا بابا آپ نے ضرور بتایا ہوگا مگر شاید میں ہی بُھول گیا ہونگا۔
بابا وقاص نے عمران کے بوکھلائے ہوئے چہرے کو دیکھا تو مُسکرا دیئے۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ میں ہی بتانا بھول گیا ہوں لیکن تُمہیں تو کم از کم اُسکا نام معلوم کرنا چاہیے تھا۔ بابا وقاص عمران کی پریشانی سے لُطف اندوز ہورہے تھے عمران نے ،،جی بابا،، کہنے میں ہی عافیت جانی ۔
لیکن بابا وہ مُحافظین کے متعلق کچھ اِرشاد فرمارہے تھے آپ ۔
بیٹا وہ کوئی عام سیکیورٹی گارڈ تو ہیں نہیں جو تُمہیں نظر آجائیں پس جس طرح تُم اپنے دُشمنوں کو نہیں دیکھ پائے اُسی طرح اپنے مُحافظین کو بھی ایک خاص وقت تک نہیں دیکھ پاؤ گے کیونکہ ہر انسانی آنکھ اُس مخلوق کو دیکھنے سے قاصر ہے کیونکہ انسانی آنکھ پر بے شُمار پردے ہیں جو اُن مخلوقات کو دیکھنے میں مانع ہیں۔ بابا وقاص نے اپنی گفتگو کو چند لمحوں کیلئے روک کر عمران کی جانب دیکھا عمران کی مِحویت کو دیکھتے ہوئے پھر سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے۔
دیکھو بیٹا اللہ کریم نے صرف یہی ایک جہان نہیں پیدا فرمایا ہے۔ بلکہ وہ تو رَب العالمین ہے اِنسانی تجسس نے اگرچہ انسان کو کئی جہانوں کے نشان دِکھائے ہیں لیکن ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی عام انسان نے تمام عَالموں کا اِدراک حاصل کرلیا ہے ویسے تو حضرت انسان میں خُود ایک جہان موجود ہے جِس کے مُتعلق ہر ایک نہیں جان پاتا۔ بس جِسے اللہ کریم چاہتا ہے چُن لیتا ہے اور وہ اُس جہان کا مُشاہدہ کرلیتا ہے اور پھر منزل بہ منزل چلتے ہوئے اُس معراج کو حاصل کرلیتا ہے جو ایک مومن کا مقصود ہوتی ہے۔
جس طرح تالاب میں رہنے والا مینڈک صرف اُسی تالاب کو کائنات سمجھ لیتا ہے اور نہیں جانتا کہ اُس تالاب سے آگے ندیاں بھی ہیں، دریا ہیں، سمندر ہے جہاں اللہ کریم کی بیشُمار مخلوق رہتی ہیں پس اُسی طرح عام انسان بھی اپنی چھوٹی سی دُنیا میں مَگن رہتا ہے اور نہیں جانتا کہ اُسکی پیدائش کا مْقصد صرف وہ نہیں جو یہ سمجھ بیٹھا ہے بلکہ اگر وہ مقصود کائنات کا گوہر نایاب پا جائے تو ایک جہاں کیا چیز ہے کئی جہانوں کو مسخر کر سکتا ہے۔
ویسے ہوسکتا ہے کہ ابھی تُمہیں میری باتیں بُہت مشکل معلوم ہوتی ہوں اور بے مقصد بھی محسوس ہوتی ہُوں۔ لیکن ایک وقت آئے گا جب تُمہیں یہ سب سمجھ آجائیں گی۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے اُس وقت میں تُمہارے پاس موجود نہ ہُوں۔
عمران بابا وقاص کی گفتگو میں ایسا مگن تھا کہ وقت گُزرنے کا احساس ہی نہ ہوسکا۔ اچانک بابا وقاص نے گُفتگو رُوک دِی عمران نے نِگاہیں اُٹھا کر بابا وقاص کی جانب دیکھا تو بابا صاحب کو حالتِ استغراق میں دیکھا ۔ یہ بابا صاحب کو اچانک کیا ہُوا؟ عمران نے سوچتے ہُوئے دیوار پر آویزاں وال کلاک کو دیکھا تو معلوم ہُوا کہ آفس جانے کا وقت ہُوچُکا تھا۔
چند لمحوں کے بعد بابا صاحب نے آنکھیں کھول کر عمران کو مُسکراتے ہوئے دیکھا اور دریافت کیا عمران میاں کیا اِرادے ہیں آج آفس نہیں جاؤ گے کیا؟
بابا میرا بَس چلے تو ساری دُنیا کو چُھوڑ کر صرف آپ کی خِدمت میں ہی حاضر رہوں عمران نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہُوئے جواب دِیا۔
جواباً بابا وقاص کہنے لگے۔ نہیں بیٹا میں یہ کبھی نہیں چاہوں گا ۔ تم پر تُمہارے ماں باپ، تمہارے بیوی بچوں، سمیت دُنیا والوں کا بھی حق بنتا ہے اُنہیں تمہاری ضرورت ہے ۔ ویسے بھی محبت قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کچھ وقت دوری بھی اِختیار کی جائے۔ ورنہ یہی قُربت کبھی ایسا ناسور بن جاتی ہے کہ شجرِ الفت کو نفرت بھری دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
اسلئے اب تُم جاؤ۔ لیکن آج ہمارے پاس تُمہارے لئے ایک خُوشخبری موجود ہے۔ لیکن اُس خوشخبری کو سُننے کیلئے آج تُمہیں دوبارہ ہمارے پاس آنا ہوگا۔
ٹھیک ہے بابا میں رات کو واپسی پر آستانے پر حاضری دیتا ہُوا جاؤں گا۔ عمران نے مُصافحہ کیلئے ہاتھوں کو تھامتے ہُوئے کہا۔
لیکن میں چاہُوں گا کہ آج تُم ہماری خاطر شام کو نہیں بلکہ سہ پہر 3 بجے آجاؤ۔ بابا وقاص نے عمران کے ہاتھوں کو شفقت سے دَباتے ہُوئے کہا۔
عمران نے بابا وقاص کے ہاتھوں کو بُوسہ دیتے ہُوئے سہ پہر 3 بجے آنے کی حامی بھرلی۔
عمران جب آفس پُہنچا تو، کسی نے بتایا کہ آپ کیلئے گھر سے کئی مرتبہ کال آچکی ہے۔
عمران نے گھر فُون مِلایا تو دوسری جانب سے بیگم کی آواز سُنائی دی۔ کون ہے وہ جِس سے مُلاقات کیلئے رات کے اندھیرے میں گھر سے چلے گئے تھے؟
دورانِ گُفتگو عمران سوچ رہا تھا کہ کسقدر شَکی ہے یہ عورت۔ وہ جو بھی ہُو؛ میں ضروری نہیں سمجھتا کہ ہر بات تُمہیں بتاؤں۔ یہ کہتے ہُوئے عمران نے رِیسیور پَٹخ دِیا۔
چند لمحے عمران پیشگی اُس خطرے کے مُتعلق سُوچتا رہا۔ جو رات کو گھر میں پیش آسکتا تھا۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ جو ہُوگا دیکھا جائے گا۔ عمران آفس کے کاموں میں اُلجھ گیا۔ ظہر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد عمران اُس خُوشخبری کے مُتعلق سوچنے لگا جو بابا وقاص آج اُسے سُنانے والے تھے کافی سُوچ بِچار کے بعد عمران اِس نتیجے پر پُہنچا کہ ہُو نہ ہُو یہ خبر کوثر، سے جُڑی ہُوگی کیونکہ مجھے اس سے زیادہ کسی خبر میں خوشی محسوس نہیں ہوسکتی۔
لیکن آخر کیا پیغام ہے جو کوثر کی جانب سے بابا وقاص کو موصول ہُوا ہوگا۔ اِسی گُتھی کو سُلجھانے میں عمران کا آدھا گھنٹہ صرف ہُوگیا لیکن عمران کِسی نتیجے پر نہ پُہنچ سکا۔ عمران نے اپنی رسٹ واچ پر ڈھائی بجے کا اَلارم لگایا ہُوا تھا جونہی گھڑی نے بَزر بجایا عمران نے اپنے آفس کو چھوڑ دیا۔
عمران جب بابا وقاص کے گھر پُہنچا تُو اُس وقت تین بجنے میں صرف پانچ مِنٹ باقی تھے۔ گھر میں داخِل ہونے کے بعد عمران نے دِیکھا کہ کافی خَواتین نئے زرق برق لباس پہنے موجود ہیں اور تقریباً سبھی خواتین نے گھونگٹ نِکالا ہُوا تھا۔ بابا وقاص حَسب سابق چارپائی پہ براجمان تھے البتہ آج چارپائی پر ایک نہایت خوبصورت رَلّی(چادر) نے قبضہ جمایا ہُوا تھا۔
بابا نے جُونہی عمران کو دیکھا تُو فرمانے لگے لُو جی نوشہ میاں بھی تشریف لے آئے۔ بابا وقاص نے جونہی یہ لفظ ادا فرمائے اَچانک وہ خَواتین کھڑی ہُوگئیں عمران جب بابا وقاص کے نزدیک پُہنچا تو اُن خواتین نے ہاتھوں میں موجود گلاب کے نفیس ہار عمران کے گلے میں ڈالنے شروع کردئیے۔
عمران اِس سچویشن کیلئے قطعی تیار نہ تھا گھبرا کر بابا وقاص کی جانب دیکھنے لگا ۔
عمران میاں گھبراؤ مت اور آرام سے ہار پِہن لو بابا وقاص کی آواز سُن کر عمران نے اپنی گھبراہٹ پر تو قابو پالیا لیکن یہ معمہ ابھی تک عمران کی سمجھ سے بالا تھا۔ دوسری بات جو عمران کو حیرت زدہ کئے ہُوئی تھی کہ اگرچہ اُن تمام خَواتین کے چہرے گھونگٹ میں پُوشیدہ تھے لیکن اُن کے ہاتھوں کو دیکھ کر ہی عمران اندازہ لگا چُکا تھا کہ وہ سب نوخیز لڑکیاں ہیں جو سونے کے زیوارت سے لَدی پھندی تھیں اور وہ نہ جانے کیسی دل فریب خُوشبو تھی جو اُنکے لباس اور بدن سے اُٹھ رہیں تھیں۔ جب آخری لڑکی بھی عمران کے گلے میں ہار ڈال چُکی، تُو بابا وقاص نے عمران کو اپنے پاس بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔ عمران نے چارپائی کے قریب پڑی دری پہ بیٹھنا چاہا تُو بابا وقاص نے کہا میاں آج آپکی جگہ وہاں نہیں ہمارے پاس ہے ۔
عمران بابا وقاص کے قریب بیٹھ کر گلے سے ہار نکالنے ہی لگا تھا کہ بابا وقاص کی پُروقار آواز سُنائی دی ، میاں اِتنی بھی کیا جلدی ہے،، جس تقریب کیلئے یہ سب اہتمام کیا گیا ہے اُس تقریب کو، پُورا تو ہو لینے دو۔
عمران کے ہاتھ جو ہاروں کو گلے سے جُدا کرنے کیلئے بڑھے تھے پلٹ کر واپس گود میں آپہنچے۔ تبھی بابا وقاص نے عمران کا ہاتھ تھاما اور اپنے کمرے کی جانب بڑھے۔ دروازے پہ خِلافِ معمول آج ایک خُوبصورت پردہ لَٹکا ہُوا تھا۔ دروازے کے نزدیک پُہنچ کر بابا وقاص کی سرگوشی سُنائی دی۔
عمران میاں آج ہَم نے آپ سے وعدہ کیا تھا نا؟ کہ آپکو ایک خُوشخبری سُنائیں گے، تُو سُنو آج وہ مہ جبیں پری اندر موجود ہے، جاؤ اور جاکر مِل لو اُس سے۔ ہماری جانب سے صرف اور صرف مُلاقات کی اِجازت ہے یہ بات مت بھولنا۔ اور اُسکی آنکھوں میں ہرگز مت جھانکنا۔ یہ کہتے ہُوئے بابا وقاص عمران کو کمرے کے دروازے پر چُھوڑ کر پَلٹ گئے۔
عمران جونہی کمرے میں داخل ہوا تو حیرت سے اُسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
جاری ہے
بابا وقاص نے عمران کے بوکھلائے ہوئے چہرے کو دیکھا تو مُسکرا دیئے۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ میں ہی بتانا بھول گیا ہوں لیکن تُمہیں تو کم از کم اُسکا نام معلوم کرنا چاہیے تھا۔ بابا وقاص عمران کی پریشانی سے لُطف اندوز ہورہے تھے عمران نے ،،جی بابا،، کہنے میں ہی عافیت جانی ۔
لیکن بابا وہ مُحافظین کے متعلق کچھ اِرشاد فرمارہے تھے آپ ۔
بیٹا وہ کوئی عام سیکیورٹی گارڈ تو ہیں نہیں جو تُمہیں نظر آجائیں پس جس طرح تُم اپنے دُشمنوں کو نہیں دیکھ پائے اُسی طرح اپنے مُحافظین کو بھی ایک خاص وقت تک نہیں دیکھ پاؤ گے کیونکہ ہر انسانی آنکھ اُس مخلوق کو دیکھنے سے قاصر ہے کیونکہ انسانی آنکھ پر بے شُمار پردے ہیں جو اُن مخلوقات کو دیکھنے میں مانع ہیں۔ بابا وقاص نے اپنی گفتگو کو چند لمحوں کیلئے روک کر عمران کی جانب دیکھا عمران کی مِحویت کو دیکھتے ہوئے پھر سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے۔
دیکھو بیٹا اللہ کریم نے صرف یہی ایک جہان نہیں پیدا فرمایا ہے۔ بلکہ وہ تو رَب العالمین ہے اِنسانی تجسس نے اگرچہ انسان کو کئی جہانوں کے نشان دِکھائے ہیں لیکن ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی عام انسان نے تمام عَالموں کا اِدراک حاصل کرلیا ہے ویسے تو حضرت انسان میں خُود ایک جہان موجود ہے جِس کے مُتعلق ہر ایک نہیں جان پاتا۔ بس جِسے اللہ کریم چاہتا ہے چُن لیتا ہے اور وہ اُس جہان کا مُشاہدہ کرلیتا ہے اور پھر منزل بہ منزل چلتے ہوئے اُس معراج کو حاصل کرلیتا ہے جو ایک مومن کا مقصود ہوتی ہے۔
جس طرح تالاب میں رہنے والا مینڈک صرف اُسی تالاب کو کائنات سمجھ لیتا ہے اور نہیں جانتا کہ اُس تالاب سے آگے ندیاں بھی ہیں، دریا ہیں، سمندر ہے جہاں اللہ کریم کی بیشُمار مخلوق رہتی ہیں پس اُسی طرح عام انسان بھی اپنی چھوٹی سی دُنیا میں مَگن رہتا ہے اور نہیں جانتا کہ اُسکی پیدائش کا مْقصد صرف وہ نہیں جو یہ سمجھ بیٹھا ہے بلکہ اگر وہ مقصود کائنات کا گوہر نایاب پا جائے تو ایک جہاں کیا چیز ہے کئی جہانوں کو مسخر کر سکتا ہے۔
ویسے ہوسکتا ہے کہ ابھی تُمہیں میری باتیں بُہت مشکل معلوم ہوتی ہوں اور بے مقصد بھی محسوس ہوتی ہُوں۔ لیکن ایک وقت آئے گا جب تُمہیں یہ سب سمجھ آجائیں گی۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے اُس وقت میں تُمہارے پاس موجود نہ ہُوں۔
عمران بابا وقاص کی گفتگو میں ایسا مگن تھا کہ وقت گُزرنے کا احساس ہی نہ ہوسکا۔ اچانک بابا وقاص نے گُفتگو رُوک دِی عمران نے نِگاہیں اُٹھا کر بابا وقاص کی جانب دیکھا تو بابا صاحب کو حالتِ استغراق میں دیکھا ۔ یہ بابا صاحب کو اچانک کیا ہُوا؟ عمران نے سوچتے ہُوئے دیوار پر آویزاں وال کلاک کو دیکھا تو معلوم ہُوا کہ آفس جانے کا وقت ہُوچُکا تھا۔
چند لمحوں کے بعد بابا صاحب نے آنکھیں کھول کر عمران کو مُسکراتے ہوئے دیکھا اور دریافت کیا عمران میاں کیا اِرادے ہیں آج آفس نہیں جاؤ گے کیا؟
بابا میرا بَس چلے تو ساری دُنیا کو چُھوڑ کر صرف آپ کی خِدمت میں ہی حاضر رہوں عمران نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہُوئے جواب دِیا۔
جواباً بابا وقاص کہنے لگے۔ نہیں بیٹا میں یہ کبھی نہیں چاہوں گا ۔ تم پر تُمہارے ماں باپ، تمہارے بیوی بچوں، سمیت دُنیا والوں کا بھی حق بنتا ہے اُنہیں تمہاری ضرورت ہے ۔ ویسے بھی محبت قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کچھ وقت دوری بھی اِختیار کی جائے۔ ورنہ یہی قُربت کبھی ایسا ناسور بن جاتی ہے کہ شجرِ الفت کو نفرت بھری دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
اسلئے اب تُم جاؤ۔ لیکن آج ہمارے پاس تُمہارے لئے ایک خُوشخبری موجود ہے۔ لیکن اُس خوشخبری کو سُننے کیلئے آج تُمہیں دوبارہ ہمارے پاس آنا ہوگا۔
ٹھیک ہے بابا میں رات کو واپسی پر آستانے پر حاضری دیتا ہُوا جاؤں گا۔ عمران نے مُصافحہ کیلئے ہاتھوں کو تھامتے ہُوئے کہا۔
لیکن میں چاہُوں گا کہ آج تُم ہماری خاطر شام کو نہیں بلکہ سہ پہر 3 بجے آجاؤ۔ بابا وقاص نے عمران کے ہاتھوں کو شفقت سے دَباتے ہُوئے کہا۔
عمران نے بابا وقاص کے ہاتھوں کو بُوسہ دیتے ہُوئے سہ پہر 3 بجے آنے کی حامی بھرلی۔
عمران جب آفس پُہنچا تو، کسی نے بتایا کہ آپ کیلئے گھر سے کئی مرتبہ کال آچکی ہے۔
عمران نے گھر فُون مِلایا تو دوسری جانب سے بیگم کی آواز سُنائی دی۔ کون ہے وہ جِس سے مُلاقات کیلئے رات کے اندھیرے میں گھر سے چلے گئے تھے؟
دورانِ گُفتگو عمران سوچ رہا تھا کہ کسقدر شَکی ہے یہ عورت۔ وہ جو بھی ہُو؛ میں ضروری نہیں سمجھتا کہ ہر بات تُمہیں بتاؤں۔ یہ کہتے ہُوئے عمران نے رِیسیور پَٹخ دِیا۔
چند لمحے عمران پیشگی اُس خطرے کے مُتعلق سُوچتا رہا۔ جو رات کو گھر میں پیش آسکتا تھا۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ جو ہُوگا دیکھا جائے گا۔ عمران آفس کے کاموں میں اُلجھ گیا۔ ظہر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد عمران اُس خُوشخبری کے مُتعلق سوچنے لگا جو بابا وقاص آج اُسے سُنانے والے تھے کافی سُوچ بِچار کے بعد عمران اِس نتیجے پر پُہنچا کہ ہُو نہ ہُو یہ خبر کوثر، سے جُڑی ہُوگی کیونکہ مجھے اس سے زیادہ کسی خبر میں خوشی محسوس نہیں ہوسکتی۔
لیکن آخر کیا پیغام ہے جو کوثر کی جانب سے بابا وقاص کو موصول ہُوا ہوگا۔ اِسی گُتھی کو سُلجھانے میں عمران کا آدھا گھنٹہ صرف ہُوگیا لیکن عمران کِسی نتیجے پر نہ پُہنچ سکا۔ عمران نے اپنی رسٹ واچ پر ڈھائی بجے کا اَلارم لگایا ہُوا تھا جونہی گھڑی نے بَزر بجایا عمران نے اپنے آفس کو چھوڑ دیا۔
عمران جب بابا وقاص کے گھر پُہنچا تُو اُس وقت تین بجنے میں صرف پانچ مِنٹ باقی تھے۔ گھر میں داخِل ہونے کے بعد عمران نے دِیکھا کہ کافی خَواتین نئے زرق برق لباس پہنے موجود ہیں اور تقریباً سبھی خواتین نے گھونگٹ نِکالا ہُوا تھا۔ بابا وقاص حَسب سابق چارپائی پہ براجمان تھے البتہ آج چارپائی پر ایک نہایت خوبصورت رَلّی(چادر) نے قبضہ جمایا ہُوا تھا۔
بابا نے جُونہی عمران کو دیکھا تُو فرمانے لگے لُو جی نوشہ میاں بھی تشریف لے آئے۔ بابا وقاص نے جونہی یہ لفظ ادا فرمائے اَچانک وہ خَواتین کھڑی ہُوگئیں عمران جب بابا وقاص کے نزدیک پُہنچا تو اُن خواتین نے ہاتھوں میں موجود گلاب کے نفیس ہار عمران کے گلے میں ڈالنے شروع کردئیے۔
عمران اِس سچویشن کیلئے قطعی تیار نہ تھا گھبرا کر بابا وقاص کی جانب دیکھنے لگا ۔
عمران میاں گھبراؤ مت اور آرام سے ہار پِہن لو بابا وقاص کی آواز سُن کر عمران نے اپنی گھبراہٹ پر تو قابو پالیا لیکن یہ معمہ ابھی تک عمران کی سمجھ سے بالا تھا۔ دوسری بات جو عمران کو حیرت زدہ کئے ہُوئی تھی کہ اگرچہ اُن تمام خَواتین کے چہرے گھونگٹ میں پُوشیدہ تھے لیکن اُن کے ہاتھوں کو دیکھ کر ہی عمران اندازہ لگا چُکا تھا کہ وہ سب نوخیز لڑکیاں ہیں جو سونے کے زیوارت سے لَدی پھندی تھیں اور وہ نہ جانے کیسی دل فریب خُوشبو تھی جو اُنکے لباس اور بدن سے اُٹھ رہیں تھیں۔ جب آخری لڑکی بھی عمران کے گلے میں ہار ڈال چُکی، تُو بابا وقاص نے عمران کو اپنے پاس بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔ عمران نے چارپائی کے قریب پڑی دری پہ بیٹھنا چاہا تُو بابا وقاص نے کہا میاں آج آپکی جگہ وہاں نہیں ہمارے پاس ہے ۔
عمران بابا وقاص کے قریب بیٹھ کر گلے سے ہار نکالنے ہی لگا تھا کہ بابا وقاص کی پُروقار آواز سُنائی دی ، میاں اِتنی بھی کیا جلدی ہے،، جس تقریب کیلئے یہ سب اہتمام کیا گیا ہے اُس تقریب کو، پُورا تو ہو لینے دو۔
عمران کے ہاتھ جو ہاروں کو گلے سے جُدا کرنے کیلئے بڑھے تھے پلٹ کر واپس گود میں آپہنچے۔ تبھی بابا وقاص نے عمران کا ہاتھ تھاما اور اپنے کمرے کی جانب بڑھے۔ دروازے پہ خِلافِ معمول آج ایک خُوبصورت پردہ لَٹکا ہُوا تھا۔ دروازے کے نزدیک پُہنچ کر بابا وقاص کی سرگوشی سُنائی دی۔
عمران میاں آج ہَم نے آپ سے وعدہ کیا تھا نا؟ کہ آپکو ایک خُوشخبری سُنائیں گے، تُو سُنو آج وہ مہ جبیں پری اندر موجود ہے، جاؤ اور جاکر مِل لو اُس سے۔ ہماری جانب سے صرف اور صرف مُلاقات کی اِجازت ہے یہ بات مت بھولنا۔ اور اُسکی آنکھوں میں ہرگز مت جھانکنا۔ یہ کہتے ہُوئے بابا وقاص عمران کو کمرے کے دروازے پر چُھوڑ کر پَلٹ گئے۔
عمران جونہی کمرے میں داخل ہوا تو حیرت سے اُسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
جاری ہے
0 comments:
Post a Comment