گُذشتہ
سے پیوستہ۔
کامل علی کی گفتگو نے وجاہت کے چہرے کی مایوسی کو اُمید کے
دِیوں سے رُوشن کردیا تھا۔۔۔۔ کامل علی نے اُس سے وعدہ کرلیا تھا ۔کہ ،، وُہ ہر حال میں اپنی توبہ پر قائم رہے۔ انشااللہ ایک
ماہ میں اُسکی جان اِن تمام چکروں سے آزاد
ہُوجائے گی۔۔۔۔۔۔وجاہت اور نفاست صدیقی کے
جانے کے بعد کامل علی بھی کوٹھی
کو تالہ ڈال کر تھکے تھکے قدموں سے گھر کی جانب روانہ ہُوگیا۔گھر کے دروازے کے باہر ایک فقیر جیسے کامل علی کا
ہی منتظر تھا۔ جیسے ہی کامل علی دروازے کے قریب پُہنچا وُہ فقیر بُڑبڑاتے ہوئے
وہاں سے پلٹ گیا۔ کامل علی کے کان میں فقیر کے صرف دُو
جملے ہی سمجھ آسکے تھے،، تیری آج
کی مزدوری تیرے پچھلے گناہوں کا کُفارہ بن گئی ہے،، ابھی بھی وقت ہے بدل لے خُود
کو اُور نِکل جا اُس پاکھنڈی کے چکر سے۔۔۔۔
اَب مزید پڑھیئے۔
کامل چند لمحے گُم سُم اُس فقیر کی بات پر غُور کرتا رَہا لیکن جُونہی فقیر گلی کے نُکڑ پر
پُہنچا۔ کامل علی بے ساختہ دُوڑتا ہُوا گلی سے باہر نِکل آیا۔لیکن اُس فقیر کا گلی
میں نام و نِشان تک نہ تھا۔ وُہ گُویا کسی چھلاوے کی مانند کامل کی نظروں سے رُوپوش ہُوچکا تھا۔ البتہ گلی
کے درمیان ایک ٹھیلے والا گُول گپے کا ٹھیلہ لئے گاہکوں کا منتظر دکھائی دیا۔ کامل علی نے ٹھیلے والے سے فقیر کی
بابت معلوم کیا۔ تو وُہ ٹھیلے والا نہایت یقین سے کہنے لگا۔کہ،، میں تقریباً آدھے
گھنٹے سے اِسی مقام پر موجود ہُوں۔ لیکن میں نے کسی فقیر کو گلی میں جاتے یا نکلتے
نہیں دیکھا۔ ۔۔۔۔۔ اچھا بھائی ،پھر مجھے ہی وہم ہُوا ہُوگا ۔کامل علی کھسیانے
انداز میں واپس گھر کی جانب چل دیا۔
ایک ہفتے سے کامل علی اپنا تمام وقت جاناں کیساتھ ہی گُزار
رَہا تھا۔ روزانہ سُورج ڈھلنے کے بعد وُہ آوٹنگ کیلئے نکل جاتے۔ کبھی سنیما، کبھی پارک اُور پھر
سمندر کنارے روزانہ ڈنر سے فارغ ہُوکر رات دیر گئے وُہ واپس آجاتے۔ ۔۔ لیکن ایک
ہفتہ میں ہی کامل کا دِل اِس تفریح سے بھی اُکتانے لگا۔ ایک بےچینی تھی اُس کے اندر جو ہر نئے گُزرتے دِن کیساتھ بڑھتی
ہی چلی جارہی تھی۔۔۔۔حالانکہ جاناں بھی کامل علی کا دِل لبھانے کیلئے رُوز نت نئے
لباس تبدئل کرتی۔۔ ویسے بھی جاناں چونکہ نرگس کی ہمشکل تھی۔ اسلئے کامل بھی اِس
رفاقت سے بیحد خوش تھا۔ بس کبھی کبھی ایک احساس اُسے ستانے لگتا تھا۔ کہ جاناں
لاکھ نرگس کی ہمشکل سہی لیکن نرگس نہیں ہے۔ وُہ ایکبار پھر نرگس سے مِلنا چاہتا
تھا۔۔۔ لیکن یہ ابوشامل نہ جانے کہاں مَرگیا تھا۔ اُس نے تو کہا تھا کہ،، صرف مجھے
سُوچنا، اُور میں تمہارے پاس چلا آوٗں گا۔ لیکن کامل علی کئی دن سے اُسے روزانہ باقاعدہ آواز دے دیکر پُکار رَہا تھا لیکن وُہ
جواب تک نہیں دے رَہا تھا۔۔۔۔
پھر اُسے وُہ فقیر یاد آنے لگتا۔۔۔ میرا تو ابو
شامل کے سِوا نہ کوئی دُوست ہے۔ اُور نہ ہی ساتھی تو کیا اُس فقیر کا اشارہ
ابوشامل کی طرف تھا۔۔۔ لیکن وُہ ابو شامل کو پاکھنڈی کیوں کہہ رَہا تھا۔ جبکہ ابو
شامل ہی وُہ واحد ہستی تھا۔کہ جس نے اُسے مایوسی کے گھپ اندھیروں سے نِکالا۔ورنہ
تو اُسکی زندگی کا مقصد ہی ختم ہُوچکا تھا۔۔۔ زندگی سے اگر ابو شامل کو نکال دُوں
تو میرے پاس دکھوں اُور پچھتاوے کے سِوا باقی ہی کیا رِہ جائے گا۔ یہی سُووچتے
ہُوئے وُہ فقیر کے خیال کو جھٹکنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اگلے ہی دِن پھر وہی خیال
اُسکی گرفت کیلئے حاضر ہُوجاتا۔
وقت گُزرتا رہا
لیکن ابو شامل ۲۰ دن بعد بھی واپس نہیں آیا۔ ایک دِن کامل شام کی چائے پی رَہا تھا۔کہ،، جاناں نے پانچ ہزار والی چار گڈیاں اُسکے سامنے ٹیبل
پر رکھتے ہُوئے استفسار کیا۔ آپ نے سادہ سے لفافے میں بیس لاکھ کی رقم یونہی کپڑوں کی الماری میں رکھ چھوڑی ہے۔ بھلا ایسی
بھی کیا لاپرواہی کی ضرورت ہے؟؟؟ بندہ رقم تو کم از کم بنک یا محفوظ جگہ پر رکھے
خُدانخواستہ آپکی غیر موجودگی میں کل کو کوئی چُور اُچکا گھر میں گھس آیا تو میں
کیا کروں گی؟۔۔۔ کامل سمجھ گیا ۔ہو نہ ہُو
۔ضروریہ ابوشامل کی حرکت ہُوگی اُسی نے
اتنی بڑی رقم کا انتظام کیا ہُوگا، ، کامل نے فوراً بات بناتے ہُوئے کہا۔۔۔ اُوہو!!! میں بھی کتنا بھلکڑ ہُوں میں نے یہ
سُوچ کر بنک سے رقم نکلوائی تھی کہ،، اپنی جاناں کیلئے ایک چھوٹی سی گاڑی خریدو ں گا۔ اور کچھ زیوارت خرید دُونگا۔۔۔ لیکن خود
ہی بھول گیا۔۔۔ شکریہ جاناں کہ،، تُم نے یاد کروادیا۔ ہم آج ہی یہ سب کچھ خریدیں
گے۔۔۔ کامل کے جواب سے جاناں کے چہرے پر ہزار بکھرنے لگے تھے۔۔۔۔ سچ کہہ رہے ہیں
نا آپ؟؟؟ جاناں نے یقین و بے یقینی کی کیفیت
میں کامل کے کاندھے پر سر ٹکاتے ہُوئے کہا۔
سب سے پہلے کامل
علی اُور جاناں نے ایک گاڑی خریدی پھر جیولرز کی دکان سے جاناں نے ایک خوبصورت قیمتی ڈائمنڈ ہار خریدا جسکے بعد مزید خریداری کیلئے
کامل کی جیب میں سکت نہیں رہی اِس لئے اُنہوں نے صدر سے آئسکریم کھانے کے بعد
واپسی کا پروگرام بنالیا۔ جس وقت وُہ کورنگی کراس کے نذدیک پُہنچے۔ ایک نوجوان لڑکی
نے انہیں بس اسٹاپ سے کچھ پہلے لفٹ کیلئے اِشارہ دِیا۔ لڑکی تنہا تھی اُور کچھ بدحواس بھی نظر آرہی تھی۔ کامل اُسے نظر انداز کرتے
ہُوئے آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ لیکن جاناں یُوں ایک لڑکی کو تنہا اُور پریشان دیکھ کر صبر نہ کرسکی۔ اسلئے کامل
سے کہنے لگی۔جان! نجانے یہ لڑکی کس مصیبت
میں گرفتار ہے۔ اُور نجانے کب سے لوگوں سے
لفٹ مانگ رہی ہُوگی۔ اگر ہم اِسکی مدد کردیں تو ہوسکتا ہے کبھی کوئی ہماری مدد
کیلئے بھی تیار ہُوجائے۔ جاناں نے یہ بات اتنے پُر اثر انداز میں کہی کہ،،
کامل جاناں کی بات ٹال نہیں پایا ۔ اُور
ریورس گیئر لگا کر لڑکی تک پُہنچ گیا۔
وُہ لڑکی تقریباً رُو دینے والے انداز میں گویا ہُوئی ،،
بھائی میرا پرس ۲موٹر سائیکل سوار چھین کر بھاگ گئے ہیں۔ اگر آپ لُوگ مجھے بلال
کالونی تک چھوڑدیں گے تو میں تمام زندگی آپ کو دُعائیں دُونگی۔ جاناں نے اُس لڑکی
کو ساتھ بٹھا لیا۔ اور اب گاڑی بلال
کالونی کیلئے رَواں دَواں تھی۔ بریڈ چورنگی پہنچنے کے بعد لڑکی نے بتایا کہ میرا گھر یہاں سے قریب ہے۔لڑکی نے گاڑی
اندر کی جانب موڑنے کا اشارہ کیا۔ یہ ایک
سنسان شاہراہ تھی ۔ ملجگی روشنی میں کچھ
دُور ۲ نوجوان شائد ایک موٹر سائیکل کا وہیل کس رہے تھے۔ اُس
لڑکی نے کامل سے کہا آپ مجھے یہاں ہی اُتار دیں یہ لڑکے میرے پڑوسی ہیں اور نذدیک
ہی میرا گھر بھی ہے۔ کامل کی چھٹی حس اُسے کسی خطرے کا اشارہ دے رہی تھی۔ لیکن اُن
لڑکوں نے بے پرواہی سے ایک اچٹتی نگاہ کار پر ڈالی اُور بائیک پر سوار ہُونے لگے۔
کامل علی نے تذبذب میں کچھ پہلے ہی گاڑی رُوک لی تھی۔ لڑکی نے گاڑی سے اُتر کر اُن
لڑکوں کی طرف صدا لگائی۔۔ ظفر بھائی ۔ ظفر بھائی۔۔۔ وُہ لڑکی اب جاناں کا شُکریہ ادا کررہی تھی۔ اُور کامل
اِس انتظار میں تھا کہ،، وہ لڑکی دروازہ
بند کرے تو کار واپسی کیلئے موڑوں ۔ لیکن دیر ہُوچکی تھی۔ کیونکہ وُہ دونوں لڑکے
پستول سنبھالے نذدیک آچکے تھے اُور اب کامل
اور جاناں کو باہر آنے کیلئے کہہ رہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ کامل کی
جامہ تلاشی لے کر تمام سامان و موبائیل کیساتھ جاتے ہُوئے جاناں کا صرف ہیرے کا
ہار ہی نہیں بلکہ روزمرہ میں پہنے جانے
والا ایک ایک زیور اُتروا کر رفو چکر ہُوچکے تھے۔ ۔۔
کامل علی نے ڈرائیونگ
کرتے ہُوئے بے بسی اُور لاچارگی میں کئی بار اسٹیرنگ وہیل پر کئی بار ہاتھ مار کر
ابوشامل کو پُکارا!!! لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ کامل کا چہرہ بے عزتی کے احساس سے
سُرخ ہُوا جارہا تھا۔ جسے دیکھ کر جاناں بھی اندر سے خُوفزدہ تھی۔کہ،، کہیں اتنے
غصے میں ڈرائیونگ کرتے ہُوئے کامل ایکسیڈنٹ نہ کربیٹھے۔ گاڑی مین شاہراہ پر پُہنچی
تو جاناں کی نظر ایک پولیس موبائیل پر پڑی۔۔۔ کامل ہمیں ان پولیس والوں کا بتانا
چاہیئے۔ ہوسکتا ہے وُہ لوگ پکڑے جائیں۔
اُور ہمیں ہمارا سامان واپس مِل جائے۔ جاناں نے ڈرتے ڈرتے کامل کو مخاطب کیا۔۔۔۔
چُپ چاپ گاڑی میں بیٹھی رہو۔ اُور اپنے مشورے اپنے پاس ہی رکھو سمجھیں۔۔۔ اگر ہماری
پولیس ہی ٹھیک ہُوتی،، تو ہم یُوں سرشام لُٹے پٹے
واپس نہ جارہے ہُوتے۔ اِن کمبختوں کا بھی ضرور حصہ ہُوگا۔ اس لُوٹ مار میں
کامل علی نے سختی سے جاناں کو ڈانٹتے ہُوئے کہا۔ جسکی وجہ سے جاناں ایک بار پھر
سہم کر خاموش بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک اُسی ڈھونگی کی مدد کے انتظار میں ہُو۔ جتنی شدت سے اُس ڈھونگی کو پُکار رہے ہو اتنی
شدت سے اگر تُم خُدا کو پکارتے تو وُہ تمہیں کب کا مِل گیا ہُوتا!!! گاڑی سے باہر وہی فقیر کامل علی کا مذاق اُڑاتے ہُوئے قہقہ لگارہا تھا۔۔۔۔ بند کرو اپنی بکواس اُور دفع ہُوجاوٗ یہاں سے۔ کامل
علی فقیر کو دیکھ آپے سے باہر ہُونے لگا۔۔۔۔ کسے دیکھ کر چِلا رہے ہیں آپ ؟؟؟؟۔۔۔۔۔
کیا تُم اندھی ہُو؟ جو تمہیں یہ فقیر دِکھائی نہیں دے رہا۔جاناں کی حیرت پر کامل
علی نے گردن موڑ کر درشت لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔
مجھے واقعی یہاں کوئی فقیر دکھائی نہیں دے
رہا جانوں آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟؟!!! جاناں نے کار کا شیشہ نیچے اُتارتے ہُوئے باہر جھانک کر
ایکبار پھر تشویش بھرے انداز میں کامل کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔ کامل علی نے حیرت سے پہلے جاناں کی طرف دیکھا ۔ اُور
پھر فقیر کی طرف دیکھا ۔ فقیر بدستور کامل علی کو استہزائیہ نظروں سے دیکھ رَہا
تھا۔۔۔۔ میں پھر کہتا ہُوں تُم سے کہ،، نکل آوٗ اِس دلدل سے۔ اِس سے پہلے کہ،،
واپسی کی راستہ کھو بیٹھو۔ فقیر نے پھر کامل علی کو تاکید کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ اتنی دیر میں سنگنل
گرین ہُوچکا تھا۔پیچھے سے گاڑیوں کے ہارن شور مچانے لگے تھے ۔ کامل علی نے فقیر پر
نگاہ رکھتے ہُوئے گاڑی فُٹ پاتھ پر ایک سائیڈ لگائی۔ اُور جونہی گاڑی سے اُتر کر
باہر آیا۔ اتنی دیر میں وُہ فقیر ایک مرتبہ پھر کامل علی کی نگاہوں سے اُوجھل
ہُوچکا تھا۔۔۔۔
(جاری
ہے)
اُسکا
کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں
کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔
مجھکو
ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو
نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!! ۔بُرا لگتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment