bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Monday 15 June 2015

تذکرہ اِک پری کا (سُراغِ زندگی) آخری قسط 33.tipk



گُذشتہ سے پیوستہ

حضرت مکھن شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر عمران رُوزانہ باقاعدگی سے جارہا تھا۔لیکن اُسے اُس کے سوالوں کے جوابات نہیں مِل رہے تھے۔ حالانکہ وہاں ملنے والے تمام لُوگ عمران کو یہی بتارہے تھے۔کہ،، صاحب مزار یہاں آنے والوں کو تشنہ نہیں رہنے دیتے۔ ۔۔۔ ایک  شام مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد عمران نے مزار مبارک پر حاضری دی۔ تو تنہائی دیکھ کر عمران سے رہا نہ گیا۔ اُور صاحب مزار  سے فریاد کرنے لگا۔ لُوگ کہتے ہیں۔کہ،، آپ کسی سائل کو نامُراد نہیں کرتے۔ پھر مجھے میرے سوالوں کا جواب کیوں نہیں مِلتا۔ جب کہ،، مجھےآج بھی یہی لگتا ہے۔کہ،، وُہ پیغام آپکی ہی جانب سے تھا۔ نجانے کتنی ہی دیر عمران صاحبِ مزار سے شکوہ کرتا رہا۔لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہُوا۔ یہاں تک کے چپلوں کی آہٹ سُن کر عمران اپنے دامن سے آنکھیں پُوچھتے ہُوئے مزار مبارک سے باہر نکل آیا۔

پھر جمعرات کی نصف شب بلاآخر  قسمت عمران پر مہربان ہُوہی گئی۔ اُور عمران کو اُس کے وکیل دوست نے کال کرکے بتایا۔کہ،، حضرت مکھن شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے در پر آپ نے کچھ پیغام چھوڑا تھا۔ جس کے جواب میں  ایک پیغام ایک صاحب کشف کو موصول ہُوا ہے۔اُور اُسے ہدایت کی گئی ہے۔کہ،، وُہ یہ پیغام مجھ تک پُہنچائے۔تاکہ میں یہ پیغام تُم تک آسانی سے پُہنچادُوں۔  

اب مزید پڑھ لیجئے۔

حضرت مکھن شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے جو پیغام بھیجا تھا۔وُہ کچھ اسطرح تھا۔۔۔ عمران ہمارے مزار پر کئی بار آچکا ہے۔اُور اپنی آخری ملاقات میں وُہ کافی دلبرداشتہ نظر آیا۔ ہمیں عمران پسند ہے۔ اُور اسکی چاہت بھی نہایت عُمدہ ہے۔ لیکن وُہ جس نعمت عظمیٰ کا طالب ہے۔ اُس کو مانگنے کے بعد  انسان کیلئے مانگنے  کو کچھ نہیں بچتا۔ عمران کو کہنا کہ، دِل گرفتہ نہ ہُو۔کہ،، عنقریب اُسے یہ نعمت ( جو کہ تمام نعمتوں میں عظیم تر ہے)عطا کردی جائے گی۔۔۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے۔کہ،، وُہ یہ نعمت  مانگنے  کیلئے  کبھی دربار باھو۔ اُور دربار باھو سے سخی شہباز قلندر تک گیا ہے۔  یہاں تک کہ،، دربار غُوث الاعظم (رضی اللہ عنہُ ) سے مدینہ طیبہ  تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔۔۔۔لیکن اپنے حجاب کی وجہ سے اُسے معلوم ہی نہیں ہُوپارہا۔کہ،، کسطرح سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہُ۔ سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اُور سخی لعل شہباز قلندر  نے اُسکو جھولیاں بھر بھر کر نوازا ہے۔ وُہ خالی ہاتھ تو کہیں سے بھی نہیں لُوٹا!!! اُس کی طلب  مولیٰ بھی سب کو پسند ہے۔ ہر مقرب بارگاہ سے اُسے عشق حقیقی کی دُعاوٗں سے نوازا گیا ہے۔  سُنو!!! عمران کو کہنا۔کہ،، خزانے تو بیشمار جمع کرلئے ہیں۔ اب صرف اِن خزانوں کی چابی حاصل کرنی ہے۔یہی چابی دراصل تمام حجاب دُور کرے گی۔۔

مگر عمران اپنی نادانانی کی وجہ سے اِن چابیوں تک نہیں پُہنچ پارہا۔۔۔ اُور اِن تمام خزانوں کی چابی  کہیں اُور نہیں عمران کے مُرشد کریم کے پاس عمران کی امانت ہیں۔ لیکن وُہ نادان اُن چابیوں کو حاصل کرنے کیلئے میاں سراج صاحب کی بارگاہ میں اپنے خُود ساختہ خُوف کی وجہ سے پُہنچ ہی نہیں پارہا۔عمران سے کہنا ! چاہے تمام زندگی خُدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہُوکر گُزار لے۔ وُہ جب تک مُرشد کو راضی نہیں کرے گا۔یہ حجاب یونہی قائم رہیں گے۔ وُہ بیچارہ  خُود وسط دریامیں کھڑا ہے۔۔۔ لیکن وضو کی تلاش  میں صحرواں کی جانب دیکھ رَہا ہے۔ تو کبھی سمندر کی وسعت کو حیرت سے تک رہا ہے۔۔۔ عمران سے کہو۔ جو ملے گا۔ وُہ تمہاری سُوچ سے بُہت ذیادہ ہے۔۔۔لیکن مِلے گا میاں صاحب کے دَر سے ہی۔۔۔ اُور عمران اِس وقت اُسی آستانے سے دُور ہے ،جہاں اُس کے مقدر کی چابی اُسکا انتظار کررہی ہے۔

اِس پیغام نے جہاں عمران کو خُوشی سے مخمور کردیا تھا۔ وہیں اِس میں ایک جملہ کہ،، جب تک مُرشد کو راضی نہیں کرے گا۔۔۔عمران کو  یہ جملہ کسی زہریلے سانپ کی طرح ڈس رہا تھا۔۔۔ کیا میاں صاحب مجھ سے ناراض ہیں؟؟؟ عمران نے اپنے وکیل دوست سے استفسار کیا۔۔۔ مجھے تو اِس پیغام سے یہی لگتا ہے۔کہ،، میاں صاحب آپ سے خفا ہیں۔ ورنہ حضرت مکھن شاہ رحمتہ اللہ علیہ یہ بات کیوں کہتے! ۔۔۔عمران کو اُس کے وکیل دوست نے اپنی  رائے دی۔۔۔ وُہ شب عمران پر قیامت کی طرح بھاری تھی۔ کہ،، میاں صاحب مجھ سے خفا ہیں۔۔ اگر میاں صاحب مجھ سے خفا ہیں۔ تو حضور سیدنا غوث الاعظم بھی  یقیناً خفا ہی ہُونگے۔ سید دُو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کیونکر راضی ہُوں گے۔ اُور وُہ پروردیگار کہ،، جس کا میں طالب و عاشق بننا چاہتا ہُوں۔ اپنے دوست کی خفگی دیکھ کر مجھے کیوں اپنائے گا۔۔۔ کہ،، دوست کو پسند آنے والا ہی محبوب رکھا جاتا ہے۔ایذا دینے والا نہیں۔۔۔ یہی جملےرات بھر عمران بُڑبڑاتے ہُوئے رات بھر رُوتا رہا۔تمام رات استغاثوں میں گُزر گئی۔۔۔

اگلے دِن جمعہ کی نماز اَدا کرنے کے بعد  عمران شرمندہ شرمندہ میاں صاحب کے آستانے کی جانب روانہ ہُوگیا۔لیکن ندامت اُور  ایک انجانے خوف نے عمران کے قدم من من بھر کے کردیئے تھے۔عمران کو یاد آیا کہ چند دِن پہلے  نصف  شب کے وقت اُسے ماریشش سے  ایک انجانی کال موصول ہُوئی تھی۔جس میں ایک سید زادی نے عمران کو اپنا بھائی بناکر دریافت کیاتھا۔کہ،، غلام بھائی آپ نے انٹرنیٹ پر لکھنا کیوں چھوڑ  دیاہے۔؟؟؟ جواب میں عمران نے عرض کیا تھا۔ آقا زادی مجھے حجاب نے نابینا کردیا ہے ۔جسکی وجہ سے اب کچھ لکھنے کو دِل نہیں چاہتا۔ جس کے جواب میں اُن آقازادی نے کہا تھا۔ کہ،، اگر مجھے اپنی بہن سمجھتے ہُو تو میاں صاحب کی حاضری کا سلسلہ پھر سے شروع کردو۔ اُور میاں صاحب کی بارگاہ میں عرض کیجئے گا۔کہ،، آپکی ایک بیٹی نے اِس غلام کی شفارش کی ہے۔۔۔ تو کیا وُہ  اُس شہزادی کی ذاتی خاہش تھی۔یا پھر میاں صاحب کی قربت حاصل کرنے کیلئے عالم تکوین میں کوئی راستہ بنایا جارہا تھا۔؟؟؟اُور اب تو  حضرت مکھن شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے واضح لفظوں میں تمام بات سمجھادی تھی۔

عمران ،، میاں صاحب کے آستانے سے لپٹ کر نجانے کتنی ہی دیر رُوتا رہا۔ اُور اپنی تمام نادانیوں ، غلطیوں، کوتاہیوں ، بے ادبیوں۔ کی معافی طلب کرتے ہُوئے بار بار عرض کرنے لگا۔ حضور میں تو آپکا ہی ہُوں۔ میری پیشانی آپکی پہچان سے داغی جا چُکی ہے۔ جس سے نسبت کی خُوشبو آج بھی مجھے باادب بنائے رکھتی ہے۔لیکن میں خطاکار ہُوں انجانے میں اگر کوئی غلطی کربیٹھا ہُوں۔تو خدا کیلئے مجھے معاف فرمادیں۔کہ،، سَیَّدوں کے در سے کوئی خالی نہیں جاتا۔ تھوڑی ہی دیر میں عمران کے قلب میں سکینہ نازل ہُونے لگا۔ عمران  مزار کے احاطے میں سورہ یسین کی تلاوت کرنے لگا یہاں تک کہ عصر کی آذان بُلند ہُونے لگی۔ کچھ مزید لُوگ بھی اجتماعی دُعا میں مصروف تھے۔ سُو عمران بھی اُس دُعا میں شریک ہُوگیا۔ لیکن آنسووٗں کو روکنا عمران کے بس میں نہیں تھا۔ سُو چشموں سے جھرنے بہہ کر خُشک سینے کو سیراب کرنے لگے۔

دعا کا اختتام ہُوچُکا تھا۔لیکن عمران کے اُٹھے ہاتھ نیچے نہیں آئے۔ تبھی کسی نے عمران کے شانوں کو آہستگی سے تھپ تھپانا شروع کردیا۔ عمران نے آنکھ کھولی تو سامنے ایک انجان نوجوان نظر آیا جسکی عمر ذیادہ سے ذیادہ پچیس برس رہی ہُوگی۔ میرا نام لئیق ہے۔کیا آپکا نام عمران احمد وقاص ہے۔۔۔؟ عمران نے حیرت سے نوجوان کو دیکھ کر اثبات میں گردن ہلادی۔۔۔۔ مجھے آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔ لیکن یہاں نہیں تنہائی میں میری بات سُن لیں۔وُہ نوجوان نہایت خلوص سے استدعا کرنے لگا۔۔۔ عمران تجسس کی وجہ میاں صاحب کو سلام پیش کرتے ہُوئے مزار کے احاطے سے باہر نکل آیا۔۔۔

آپ جس وقت دعا میں مشغول تھے۔ میاں صاحب نے مجھے  شرف مُلاقات بخشا تھا۔اُورآپکی طرف اشارہ کرتے ہُوئے فرما     یا  تھا۔یہ  ہمارا بیٹا ہےعمران احمد وقاص۔ دیکھو   رُو رُو کر اِس نے اپنا کیاحال بنالیا ہے۔اِسے ہمارا سلام کہو اُور اِسے کہناکہ،، ہم اپنے بیتے سے بالکل بھی ناراض نہیں ہیں۔اسکے دوست کو  حضرت مکھن شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی بات  شائدسمجھ نہیں آئی  تو اُس نے راضی کرنے کو خفگی سے مشروط کردیا۔ جب کہ ہمیں عمران سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اِسکی امانت ہمارے پاس موجود ہے جو ہم اپنے بیٹے کوضرور دیں گے۔ بس اسے کہنا کہ،، وُہ استقامت سے منزل کی جانب پیشقدمی جاری رکھے۔   یہ راستہ  چونکہ راہِ عشق ہے۔ اسلئے اِسمیں کچھ رُکاوٹیں بھی ضرور پیش آئیں گی۔ لیکن میرا عمران پانی کی طرح ہے۔ اُور پانی اپنا راستہ خُود تلاش کرلیتا ہے۔ بس عمران سے کہنا کہ،، اب ہمارے یہاں ہفتہ میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور آیا کرے اُور یسین شریف کی تلاوت ضرور کیاکرے۔

میاں صاحب کے پیغام نے عمران کی زندگی کے تمام غموں کو خوشیوں میں بدل ڈالا تھا۔ ہفتہ وار محفلوں کا انعقاد شروع ہُوا۔ تو عشق کے دریا سے صرف عمران ہی فیضیاب نہیں ہُوا۔۔۔ بلکہ عمران کے دوستوں پر بھی  عمران کی سفارش پر راہِ عشق کے در کھول دیئے گئے۔ ۔۔ ہر ایک نے  دریائے عشق  میں اپنے اپنے ظرف کے مطابق ڈبکیاں لگائیں۔ اُور گوہر مراد سے اپنی جھولیاں بھرلیں۔ کسی کو مشاہدات کی نعمت عطا کی گئی۔تو کسی کو جلووٗں کی۔۔۔ اور عمران کیلئے نفوسِ قدسیہ ( جس میں مشہور انبیائے کرام  علیہم السلام)اُور اولیائے کرام رحمُ اللہ اجمعین  شامل تھے۔ کی جانب سے بیشمار پیغامات موصول ہُونے لگے۔ جن میں عمران کو مبارکباد بھی دی گئیں۔ اُور میاں صاحب کی دلہن کے نام سے بھی  موسوم کیا گیا۔۔۔ اُور یُوں ایک اُور عشق مجازی سے جنم لینے والی کہانی عشق حقیقی کے بحر بیکنار میں ضم ہُوگئی۔

(ختم شُد)۔

نُوٹ۔

کہانی کو طوالت سے بچانے کیلئے کچھ واقعات کو بہت اختصار کیساتھ  پیش کرنا پڑا۔ جس میں ایک واقعہ کوثر سے ناران میں مُلاقات تھی۔ جسے حذف کردیا گیا۔ اِس مؒلاقات کا واقعہ کچھ یُوں ہے۔کہ،، عمران ایک مدنی قافلے کیساتھ  ایک ماہ کیلئےاسلام آبادگیا تھا۔ وہاں حُسن اتفاق سے بیشمار قافلے آئے ہُوئے تھے۔ جسکی وجہ سےعمران کا قافلہ مانسہرہ  کی طرف روانہ کردیا گیا۔ جہاں سے وُہ لُوگ بالاکوٹ اُور پارس پُہنچ گئے۔ پارس  پُہنچنے کے بعد جب کسی نے  عمران کو بتایا کہ،، ناران اُور جھیل سیف الملوک یہاں سے بُہت نذدیک ہیں۔ تو عمران سے نہیں رہا گیا۔ اُور قافلہ نگران سے عرض کی کہ،، ایک دن ناران بھی  چلنا چاہیئے۔   یُوں عمران کی خاہش کی وجہ سے مدنی قافلہ ناران پُہنچ گیا۔ جسکے بعد عمران باآسانی جھیل سیف الملوک پُہنچنے میں کامیاب  ہُوگیا تھا۔ جبکہ کوثر نے عشق  حقیقی کے مقابلے میں قربانی دیتے ہُوئے عشق مجازی سے نکلنے میں  عمران کی جو مدد کی یہ تذکرہ بھی شامل نہیں ہوسکا۔ بہرحال ہر نیکی کی جزا  کریم پروردیگار کی بارگاہ میں موجود ہے۔ اللہ کریم عمران  کی عشق  حقیقی کی تلاش میں مدد کرنے والے تمام ساتھیوں کی سعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔ اُور انہیں بہترین جزا سے سرفراز کرے۔

پلکوں سے دَر یار پر دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا

0 comments:

Post a Comment