bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Monday 4 March 2013

اِمتحان کے رنگ شیخ صنعان کے سنگ قسط۲

                                                                                              

    عِشق کے رَنگ قسط ۴  اِمتحان کے رنگ شیخ صنعان کے سنگ


گُذشتہ سے پیوستہ 


میرے بھائی اِس میں سعادت کی کیا بات ہے۔ آپ لُوگ خوش نصیب ہیں۔ جو زیاراتِ مقدسہ اُور حج کی سعادت حاصل کرنے کیلئے اپنے گھر سے نِکلے ہیں۔۔۔ جبکہ میں کئی برس حَرمِ پاک کی خدمت کے بعد واپس لُوٹ رہا ہُوں۔ اُور اب بیت المقدس کی حاضری کے اِرادے سے مکہ کی مقدس سرزمین کو بُہت پیچھے چھوڑ آیا ہُوں۔ اللہ کریم آپکی زیارات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔اُور آپ لوگوں کو حج میں آسانی عطا فرمائے۔۔۔ اگر مکہ میں کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا ہُو۔ تو آپ بلا جھجک اِمام کعبہ سے میرے حوالے سے مُلاقات کرلیجئے گا۔۔۔ انشاٗ اللہ ۔وُہ آپکی ہر ممکن مدد کریں گے۔۔۔ اچھا اَب آپ یہ تُو بتاوٗ کہ،، بغداد کے کیا احوال ہیں۔۔۔۔؟؟؟شیخ صنعان نے خندہ پیشانی سے استفسار کرتے ہُوئے کہا۔ 

اَب مَزید پڑھ لیجئے۔ 


حضورِ والا بغداد پر اللہ کریم کا خاص کرم ہے۔ سیدنا عبدالقادر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں کی برکت سے چہار جانب سے بغدادپر رحمتوں کی بارش ہے۔ ہزار ہا عِلم کے متلاشی بغداد کی جانب پروانوں کی مانند  اپنی تشنگی مِٹانے کیلئے چلے آرہے ہیں۔۔۔ اُور جب سے سیدنا شیخ عبدلقادر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اَمر الہی سے  یہ کلمہ اِرشاد فرمایا ہے۔کہ،، میرا قدم تمام اُولیاٗ کی گردنوں پر ہے،،  تب سے کیا مشرق کیا مغرب کیا شمال اُور کیا جُنوب۔۔۔ ہر ایک جانب سے  صوفیائے کرام کے گروہ جوق دِر جوق اپنی اپنی گردنوں کو سیدنا عبدالقادر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں میں بچھانے کیلئے بغداد میں  جھگمٹ کیئے ہُوئے ہیں۔۔۔ آنے والے مہمان نے بغداد کا نقشہ کھنچتے ہُوئے  عقیدت سے  بتایا۔۔۔

ہم نے بھی عبدالقادر گیلانی کے متعلق کافی کچھ سُنا ہے،، لیکن ہمیں اُن سے ایسی اُمید نہیں تھی۔کہ،، وُہ حالت سکر میں ایسی کوئی بات  اپنی زُبان سے نکالیں گے۔۔۔؟؟؟شیخ صاحب نے تاسف کا اظہار کرتے ہُوئے کہا۔

جناب والا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔؟  سیدنا غوثِ الاعظم رحمتہ اللہ علیہ نے یہ کلمہ حالت سکر میں اِرشاد نہیں فرمایا۔ ۔۔ کیونکہ آپ جیسے عالم ذیشان کے بارے میں  ایسا سُوچا بھی نہیں جاسکتا کہ،، آپ امر الہی کے علاوہ کوئی ایسی بات کہتے۔ اُور اگر ایسا ہُوتا  بھی ۔۔۔تو آپ ضرور بالضرور بعد میں تصیح فرمادیتے کہ،، مجھ سے حالت سکر میں یہ جملہ نکل گیا تھا۔اسلئے  کوئی بھی میری اِس بات پر کان نہ دھرے۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہُوا۔۔۔کیونکہ آپ نے وُہ جملہ حالت سکر میں  کہا ہی نہیں تھا۔۔۔ بلکہ اَمر الہی  (اللہ کے حُکم ) سے اِرشاد فرمایا تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ،، اگر یہ کلمہ حالت سکر کی وجہ سے ہُوتا۔ تو کبھی بھی ،،علی بن ھیتی، اِمام یافعی، اِبن عربی، حضرت معین الدین چشتی،   اُور شاہ سہرورد کیساتھ ساتھ ہزاروں مشائخ کرام آپ کے قُول کی تصدیق نہیں کرتے۔ لیکن  رُوئے زمین پر جہاں جہاں تک آپکا یہ قُولِ ِمبارک پُہنچ رہا ہے۔ اُولیاٗئے کرام اپنی گردنوں کو خم کرتے چلے جارہے ہیں۔آنے والے مہمان نے  دلیل دیتے ہُوئے  شیخ صاحب کے چہرے کی جانب  اُمید بھری نظروں سے دیکھا۔


مہمان کو  قوی اُمید تھی ۔کہ،، شیخ صاحب میری دلیلوں کی وجہ سے اپنے قول سے رجوع فرمالیں گے۔۔۔ لیکن شیخ صنعان کے چہرے پر ناگواری کے اثرات سے صاف پتہ چلتا تھا۔کہ،، اُسے مہمان کا  اِسطرح دلیل دینا بالکل پسند نہیں آیا ہے۔۔۔۔ کچھ لمحے توقف کے بعد شیخ صنعان نے مہمان کو مخاطب کرتے ہُوئے درشت لہجے میں کہا۔ ۔۔ تمہارا مطلب ہےکہ،، میں نے برسہا برس  کی ریاضت و مجاہدات کے بعد قربِ خداوندی کی جو نعمت حاصل کی ہے۔ اُسکی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اُور اَب  گیلان کے ایک شیخ کے قول پر اُنکے قدموں میں اپنا سَر ڈال دُوں۔جبکہ مُجھے محبوبین کے مقام کا شرف عطا کیاگیا ہے۔۔۔ لیکن! تُم کیا جانو! کہ مقام محبوبین کیا ہے۔۔۔ گفتگو کرتے ہُوئے شیخ صنعان  کے لہجے   میں  اِستہزا کی جھلک دَر آئی تھی۔

جناب والا آپ ناراض نہ ہُوں۔۔۔ میری ایسی اُوقات نہیں ہے۔ کہ،، آپ جیسی بزرگ ہستی کی شان میں ذرا سی بھی بے ادبی کا سُوچوں۔ لیکن عزت دینے والی ذات تو اللہ کریم ہی کی ہے۔ کبھی لاکھوں برس کی عبادت بھی اِک ذرا سی بے ادبی کے باعث ضائع ہُوجاتی ہے۔۔۔  آپ ہی بتائیے کہ،، سیدنا آدم علیہ السلام کے پاس شیطان کے مقابلے میں کونسی عبادات تھیں۔  لیکن اللہ کریم نے مقرب فرشتوں،  اُور شیطان کی بے مِثال عبادات کے باوجود عزت کا تاج سیدنا آدم علیہ السلام کے سر پر سجا دیا۔ اُور  اِس تاج کی حرمت کی وجہ سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا لازم ٹہرا۔ فرشتوں نے بلاچُوں چرا کے سجدہ کرلیا اُور عافیت میں رہے۔ جبکہ شیطان یہی کہتا رہا۔کہ،، میں توحید پرست ہُوں۔۔۔  حادث کو سجدہ کیونکر کروں۔۔ ۔ لیکن غصہ  اُور حسدکی حالت کی وجہ سے وُہ  یہ بات بُھول گیا۔کہ،،حکم ادب پر فوقیت رکھتا ہے۔ ۔۔۔ اُوریہ بات  میں نے آپ جیسے بزرگوں سے ہی سُنی ہے۔۔۔ کہ،،جب اَمر  ربی ظاہر ہُوجائے تو  دلیل نہیں دی جاتی سر جھکا دیا جاتا ہے۔۔۔  عجمی مہمان یُوں بے تکان تقریر کررہا تھا۔جیسے وُہ اِس موقع کیلئے  کئی ماہ سے ریاضت کررہا ہُو۔

جبکہ شیخ صنعان کا چہرہ غم و غصے سے دہکنے لگا۔ بلاآخر شیخ کی قُوت برداشت جواب دے گئی۔۔۔ اُس نے چِلاتے ہُوئے کہا۔۔۔ تمہاری یہ مجال کہ،، مجھے اپنے بغدادی شیخ کی خاطر شیطان سے مِلا رہے ہُو۔۔۔ فوراً میری نظروں کے سامنے سے دفع ہُوجاوً۔۔۔۔ اُور ہاں کان کھول کر سنتے جاوٗ۔۔۔ شیخ صنعان کی یہ گردن نہ پہلے کسی بندے کے سامنے جھکی ہے۔۔۔ اُور نہ آئندہ کسی کے سامنے جُھکے گی۔۔۔  غصے کی ذِیادتی کی وجہ سے شیخ صنعان کے منہ سے کف اُڑنے لگا تھا۔۔۔ اپنے شیخ کی ایسی حالت دیکھ کر مُریدین پریشانی کے عالم میں آگے بڑھے ۔ اُور مہمان کو دھکیلتے ہُوئے خیمے سے باہر لےگئے۔

دوسرے دِن فجر اُور ظہر کی نماز کیلئے شیخ کا حکم آیا کہ،، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ کسی  ایک کو اِمام مقرر کرلیا جائے۔ فرید نے  دُو تین مرتبہ خیمے میں داخل ہُونے کی کوشش کی لیکن ہر مرتبہ پہریدار نے یہی بتاتا کہ شیخ ابھی تک رات والے صدمے سے باہر نہیں آئے ہیں۔  وُہ رات سے ہی غصے کی حالت میں خود کلامی کررہے ہیں۔ تیسرے دِن بھی شیخ  نے فجر کی نماز خیمے میں ہی ادا  کی۔اُور وُہ باہر نہ نکلے۔۔

ظہر کی نماز کے بعدفرید کے پاس شیخ صنعان کا پیغام آیا۔کہ،، جلد از جلد خیمے میں پہنچو۔۔۔۔ فرید جب شیخ کی خدمت میں حاضر ہُوا۔تو اُسے معلوم ہُوا کہ،، شیخ صاحب  عصر کی نماز تبوک شہر میں اداکرنے کیلئے تشریف لیجارہے ہیں۔  ۔۔اُورتبوک  شہرمیں عشا تک ٹہر کر واپس آئیں گے۔۔۔ صرف چند خاص لُوگوں کیساتھ شیخ صنعان  تبوک کی جامع مسجد کیلئے روانہ ہُوگئے۔ عصر کی اذان سے قبل یہ مختصر سا قافلہ جامع مسجد تبوک پُہنچ چُکا تھا۔۔۔ شیخ صنعان کی شہرت جامع مسجد کے اِمام صاحب تک بھی پُہنچ چکی تھی۔۔۔ اِس لئے جونہی یہ قافلہ جامع مسجد تبوک پُہنچا۔ اِمامِ مسجد نے خود آگے بڑھ کر مسجد کے داخلی دروازے پر شیخ صنعان کا پُرجوش استقبال کیا۔ اُور دست بوسی کی خواہش ظاہر کی۔۔۔ شیخ صنعان نے جامع مسجد کے اِمام سے عصر کی آذان دینے کی خُواہش ظاہر کرتے ہُوئے کہاکہ،، وُہ تبوک شہر میں اپنے لئے نیکی کی ایک نشانی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ یہ سَرزمین  اُنکی دعوت کی گواہ ہُوجائے۔۔۔۔ جسے اِمام مسجد نے سعادت سمجھ کر قبول کرلیا۔۔۔ اُور شیخ صنعان کیلئے مینار پر جانے کیلئے زینہ کا دروازہ کھول دِیا۔

شیخ صنعان نے مینار پر چڑھ کر نہایت خشوع اُور خضوع سے اَذان دینی شروع کی۔۔۔ حی علی  الصلواۃ کی صدا دیتے ہُوئے  بے اختیارشیخ صنعان کی نِگاہ  مینار کی داہنی جانب واقع ایک مکان کی چھت پر پڑی ۔جہاں ایک پری چہرہ قاتلہ اپنی زُلفوں کو سکھانے میں اتنی منہمک تھی۔۔۔کہ،، اُسے  خبر ہی نہ ہُوسکی کہ،،  جوانی کی دہلیز عبور کرنے والا ایک عابد و زاہد اُسکی زُلفوں کا شکار ہُوچکا ہے۔ اُور اُسکے حسن  کے دام میں ایسا گرفتار ہُوا ہے۔ کہ،، باقی اِذان کے صیغے اَدا کرتے ہُوئے وُہ یہ بھی بُھول چکا ہے۔کہ اب اُسکا چہرہ قبلے کی جانب نہیں رَہا ہے۔ بلکہ اُس نے اِس کے چہرے کو ہی اپنا قبلہ بنا   ڈالا ہے۔۔۔  وُہ حسینہ جب تک اپنی زُلفوں سے کھیلتی رہی۔شیخ صنعان ایک سحر ذدہ انسان کی مانند اُسکے چہرے کو تکتا رِہا یہاں تک کہ فرید مینار پر شیخ کو  ادب سے پُکارتے ہُوئے چلا آیا۔ فرید نے جب اپنے شیخ کو اتنی وارفتگی سے ایک حسینہ کو تکتے دیکھا۔تو جھینپ کر پیچھے کی جانب  گیا۔ اُور کھنکارتے ہُوئے شیخ کو متوجہ کرنے لگا۔۔۔ یاسیدی جماعت کا وقت قریب آگیاہے۔سب لُوگ جماعت ادا کرنے کیلئے آپکے منتظر ہیں۔۔۔۔ اتفاق سے اُسی وقت لڑکی کو کسی نے نیچے سے پُکارا جسکی وجہ سے وُہ لڑکی نیچے چلی گئی۔۔۔۔

بقیہ حصہ انشا اللہ جمعرات کو۔۔۔





1 comment:

  1. ALLAH KAREEM apnay naik bandon k tufail ham sab k eman ki hifazat farmayay.

    ReplyDelete