bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Sunday 3 March 2013

اِمتحان کے رنگ شیخ صنعان کے سنگ قسط ۱





اِمتحان کے رنگ شیخ صنعان کے سنگ

اِمام کعبہ نے جب سے یہ خَبر سُنی تھی۔کہ ،،مُلک شام کی جانب جانے والے قافلے میں کُوچ کی تیاری مکمل ہُونے کو ہے۔ تب سے اِمام کعبہ کی بس یہی خُواہش تھی۔ کہ ،، کوئی ایسا سبب ہُوجائے جسکی وجہ سے شام کی جانب کُوچ کرنے والا یہ قافلہ مزید کچھ دِنوں کیلئے حَدودِ حرم میں ٹہر جائے۔  نماز عِشاٗ کی اِمامت سے فارغ ہُونے کے بعد سے تقریباً ایک گھنٹہ بیت چُکا تھا۔ لیکن اِمام کعبہ  غِلاف کعبہ تھامے یہی دُعا کررہے تھے۔کہ ،،  اے میرےاِلہی رَحم فرمانا  تیرے ایک صالح بندے کو سفر درپیش ہے۔ لیکن نجانے میرے دِل میں کیوں ہُول سے اُٹھ رہے ہیں۔۔۔ جیسے کوئی حادثہ مسافروں کی آمد کیلئے بےچینی سے منتظر ہُو۔۔۔تیرے یہ تمام بندے تیرے ایک آستاں سے دوسرے آستانے کی جانب کوچ کررہے ہیں۔ انکی مدد فرمانا۔۔۔۔ انکی حفاظت فرمانا۔

اِمام کعبہ  بھیگی آنکھوں  کیساتھ دُعاوٗں میں مشغول تھے۔ کہ کسی کے کپڑوں کی سرسراہٹ نے اِمام کعبہ کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرلیا۔ اِمامِ کعبہ نے اپنی چادر سے آنکھوں کے گُوشوں کو صاف کرنے کے بعد آنے والے کو دیکھ کر مغموم لہجے میں دریافت کیا۔۔۔ کہو عبدالباسط کیا خبر ہے۔؟؟؟ آنے والے نوجوان نے نہایت سعادتمندی سے اِمام کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہُوئے عرض کیا۔ اُستادِ محترم   امیر قافلہ  نے روانگی کا حکم دے دیا ہے۔ شائد آدھے گھنٹے میں قافلہ اپنا سفر شروع کردے گا۔

اِمام صاحب تیزی سے عبدالباسط کیساتھ قافلے والوں کی جانب بڑھے چلےجارہے تھے۔۔۔ قافلہ والوں کی تیاری عروج پر تھی۔ مُسافر اُونٹوں اُورگھوڑوں پر سوار ہُوچکے تھے۔ تمام خیموں کو سمیٹ لیا گیا تھا۔ صرف ایک خیمہ ایستادہ تھا۔ جسکے قریب چند خُدام منتظر تھے کہ،، جیسے ہی شیخ حکم فرمائیں گے۔اِس مقدس خیمے کو بھی لپیٹ لیا جائے۔۔۔ اِنہی خُدام میں ایک نوجوان کو مخاطب کرتے ہُوئے اِمام صاحب نے فرمایا۔ فرید! کیا شیخ صنعان  اندر تشریف رکھتے ہیں۔۔۔۔ فرید  نے بڑے ادب سے جواب دِیا۔۔۔یا اِمام ،، شیخ روانگی سے قبل قافلے والوں کی سلامتی کیلئے نفل نماز  ادا کررہے ہیں۔۔۔۔ اِمام صاحب خیمے میں دَاخل ہُوئے تو شیخ صاحب نماز کے بعد بڑے خشوع اُور خضوع سے  دھیمے دھیمے لہجے میں قافلہ والوں کی سلامتی کیلئے پرسوز انداز میں دُعا فرمارہے تھے۔

شیخ صاحب  کی دُعا سے فراغت کے بعد اِمام کعبہ پر نظر پڑی۔ تو نہایت احترام و گرمجوشی سے اِمام صاحب کی جانب بڑھے اُور چہرے پر بوسہ دینے کے بعد معانقہ فرمانے لگے۔۔۔ کتنے ہی لمحے خاموشی سے وُہ ایک دوسرے کے سینوں سے چمٹے رہے۔۔۔۔ بلاآخر اِمام کعبہ نے ہی   شیخ صنعان سے الگ ہُو کر اِس سکوت کو توڑتے ہُوئے کہا۔۔۔  یا  شیخ  آخر کار آپ اتنے برسوں کی رِفاقت  چھوڑ کر جارہے ہُیں۔۔۔  آپ پر میری التجاوٗں کاکچھ اثر نہیں ہُوا۔۔۔؟ْ

یا اِمامِ حَرم ۔۔ اگر میرے اِختیار میں ہُوتا تو میں باقی تمام زندگی  بھی حرمِ پاک میں ہی بسر کردیتا۔۔۔لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار بتا چُکا ہُوں۔کہ،، کوئی انجانی طاقت جیسے  مجھے ہرلمحہ  اپنی جانب کھینچتی رِہتی ہے۔۔۔ اُور میں کوئی تمام زندگی کے لئے تو بیت المقدس نہیں جارہا۔بس  دِل میں یہی خُواہش ہے کہ،، جس طرح کچھ برس کعبہ کی خدمت اللہ کریم نے مجھ سے لی ہے۔ بس اِسی ذوق و شوق سے چند برس بیت المقدس میں بھی عبادت کا شرف حاصل ہُوجائے۔۔۔ اُور اب تو کئی راتوں سے بیت المقدس  کی گلیاں  میرے خُوابوںمیں آکر مجھے بے چین کئے رکھتی ہیں۔۔۔۔ آپ میری وجہ سے مغموم نہ ہُوں۔ زندگی نے یاوری کی تو انشاٗ اللہ چند برس بعد میں واپس لُوٹ کر آوٗنگا۔۔۔۔ اُور پھر ہمیشہ کیلئے  حرم پاک میں معتکف ہُوجاوٗں گا۔ ویسے بھی زندگی کے نوے برس گُزر ہی چکے ہیں۔ اب زندگی کا کیا بھروسہ نجانے کب تک وفا کرے۔۔۔تھوڑی دیر بعد اِمام  صاحب ایک مرتبہ پھر شیخ صنعان سے گلے مِلنے کے بعد قافلہ والوں کو وِداع کررہے تھے۔جب تک قافلہ  نظروں سے اُوجھل نہ ہُوگیا۔ اِمام کعبہ قافلہ والوں کی سلامتی کیلئے زیر لب کھڑے کھڑے دُعا فرماتے رہے۔

کئی ہزار نفوس پر مشتمل یہ قافلہ مکہ سے بیت المقدس کی جانب رَواں دَواں تھا۔۔۔ یہ ہزاروں لُوگ جو کہ شیخ صنعان کے مُریدین تھے۔ ایک شانِ بے نیازی سے اپنے مُرشد کی ہمراہی میں    راستے کی تمام تکلیفوں اُور مشکلات کو رُوندتے ہُوئے چلے جارہے تھے۔۔۔کئی دِن کی  تھکادینے والی مُسافت کے بعد یہ لُوگ اپنی منزل سے نزدیک سے نزدیک تر ہُوتے چلے جارہے تھے۔۔۔ رُومی سلطنت  گرچہ مسلمانوں کو خراج پیش کررہی تھی۔ لیکن ابھی  تک کئی علاقے خالص مسیحی بستیوں پرمشتمل تھے۔  کلیسا  و گرجے محفوظ تھے۔ لیکن اب جا بجا  مساجدیں اِسلام کی شوکت و عظمت کے گیت  بھی سُنارہی تھیں۔

تبوک  کے مضافات میں پُہنچ کر شیخ نے تمام قافلے وَالوں کو ہدایات  جاری کئیں۔ کہ ،، تبوک میں قافلہ ۲ دِن قیام کرے گا۔ اِسکے بعد پھر سے قافلہ  اِرضِ مقدس کیلئے رَواں دَواں ہُوجائے گا۔ اِن ۲ دِنوں میں جانوروں کو آرام  کرنے دیا جائے۔  شہر سے باہر ہی خیمے نصب کردیئے جائیں۔ اُور تبوک سے ضرورت کی اَشیئا خرید کرلی جائیں۔ تاکہ بقیہ سفر میں کوئی پریشانی درپیش نہ ہُو۔

اُسی رات بغداد کی جانب سے مکہ جانے والا ایک قافلہ نے بھی  مضافاتِ تبوک میں ایک نئی خیمہ بستی آباد کرلی۔۔۔ رات کے وقت  شیخ کے مُرید خاص فرید نے شیخ کو اطلاع پُہنچائی۔کہ بغداد کی جانب سے آنے والے قافلے سے ایک بُزرگ شیخ سے مُلاقات کے متمنی ہیں۔ شیخ صنعان سے اجازت ملنے کے بعد معاز اُن بُزرگ کو لیکر شیخ صاحب کے وسیع خیمہ میں حاضر ہُوگیا۔ ۔۔ شیخ صاحب    چند خاص مریدین کو تصوف میں ادب کی اہمیت پر درس دے رہے تھے۔ آنے والے بُزرگ کے چہرے پر سیاہ اُور سفید داڑھی نہایت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اُور پیشانی کے نور سے صاف پتہ چلتا تھا۔کہ آنے والے مہمان کے رات و دِن راز الہی   سمیٹنے میں بسر ہُوتے ہیں۔ لیکن مہمان کے چہرے سے ہزار گُنا ذیادہ تابانی شیخ صاحب کے پُرنور چہرے سے مترشح تھی۔ جس سے نظریں ہٹانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اِس لئے مہمان کی آمد  پر چند مُریدین نے صرف ایک اُچٹتی سی نِگاہ ڈالی۔ اُور دُوسرے ہی لمحے وُہ پھر سے شیخ صاحب کی مسحور کُن آواز  کے سحر میں کھوگئے۔

درس کے اِختتام کے بعد آنے والے مہمان نے آگے بڑھ کر شیخ صاحب کے ہاتھوں کو بوسہ دیکر اپنی عقیدت مندی کا اِظہار کیا۔۔۔ اُور شیخ صاحب کو مخاطب کرتے ہُوئے عرض گُزار ہُوا۔۔۔ حضور والا۔ ہمارا ایک مختصر سا قافلہ  زیارات ِ شام اُورحج کی سعادت حاصل کرنے کیلئے بغداد سے آرہا ہے۔ ہماری خُوش نصیبی تھی۔ کہ سرِ ارہ آپ سے مُلاقات کا بھی شرف حاصل ہُوگیا۔

میرے بھائی اِس میں سعادت کی کیا بات ہے۔ آپ لُوگ خوش نصیب ہیں۔ جو زیاراتِ مقدسہ اُور حج کی سعادت حاصل کرنے کیلئے اپنے گھر سے نِکلے ہیں۔۔۔ جبکہ میں کئی برس حَرمِ پاک کی خدمت کے بعد واپس لُوٹ رہا ہُوں۔ اُور اب بیت المقدس کی حاضری کے اِرادے سے مکہ کی مقدس سرزمین کو بُہت پیچھے چھوڑ آیا ہُوں۔ اللہ کریم آپکی زیارات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔اُور آپ لوگوں کو حج میں آسانی عطا فرمائے۔۔۔ اگر مکہ میں کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا ہُو۔ تو آپ بلا جھجک اِمام کعبہ سے میرے حوالے سے مُلاقات کرلیجئے گا۔۔۔ انشاٗ اللہ ۔وُہ آپکی ہر ممکن مدد کریں گے۔۔۔ اچھا اَب آپ یہ تُو بتاوٗ کہ،، بغداد کے کیا احوال ہیں۔۔۔۔؟؟؟شیخ صاحب نے خندہ 
پیشانی سے استفسار کرتے ہُوئے کہا۔


بقیہ ۵:۳:۱۴ کو ملاحظہ فرمائیں انشاٗ اللہ

1 comment:

  1. ہم سے پوچھو کیا مککیبازی ہوشیار رہنا ہوگا، کبھی کبھی منعقد کیا جا سکتا

    ReplyDelete