bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Tuesday 5 March 2013

امتحان کا رنگ شیخ صنعان قسط ۳



گُذشتہ سے پیوستہ۔ 


شیخ صنعان نے مینار پر چڑھ کر نہایت خشوع اُور خضوع سے اَذان دینی شروع کی۔۔۔ حی علی  الصلواۃ کی صدا دیتے ہُوئے  بے اختیارشیخ صنعان کی نِگاہ  مینار کی داہنی جانب واقع ایک مکان کی چھت پر پڑی ۔جہاں ایک پری چہرہ قاتلہ اپنی زُلفوں کو سکھانے میں اتنی منہمک تھی۔۔۔کہ،، اُسے  خبر ہی نہ ہُوسکی کہ،،  ڈھلتی عمر کا ایک عابد و زاہد اُسکی زُلفوں کا شکار ہُوچکا ہے۔ اُور اُسکے حسن  کے دام میں ایسا گرفتار ہُوا ہے۔ کہ،، باقی اِذان کے صیغے اَدا کرتے ہُوئے وُہ یہ بھی بُھول چکا ہے۔کہ اب اُسکا چہرہ قبلے کی جانب نہیں رَہا ہے۔ بلکہ اُس نے اِس کے چہرے کو ہی اپنا قبلہ بنا   ڈالا ہے۔۔۔  وُہ حسینہ جب تک اپنی زُلفوں سے کھیلتی رہی۔شیخ صنعان ایک سحر ذدہ انسان کی مانند اُسکے چہرے کو تکتا رِہا یہاں تک کہ فرید مینار پر شیخ کو  ادب سے پُکارتے ہُوئے چلا آیا۔ فرید نے جب اپنے شیخ کو اتنی وارفتگی سے ایک حسینہ کو تکتے دیکھا۔تو جھینپ کر پیچھے کی جانب  گیا۔ اُور کھنکارتے ہُوئے شیخ کو متوجہ کرنے لگا۔۔۔ یاسیدی جماعت کا وقت قریب آگیاہے۔سب لُوگ جماعت ادا کرنے کیلئے آپکے منتظر ہیں۔۔۔۔ اتفاق سے اُسی وقت لڑکی کو کسی نے نیچے سے پُکارا جسکی وجہ سے وُہ لڑکی نیچے چلی گئی۔۔۔۔

اَب مزید پڑھ لیجئے۔ 

شیخ صنعان  تمام نماز میں اُس لڑکی کے خیال کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔لیکن اُس حسینہ کا سراپا  بار بار شیخ کے تصور میں آکر گویا شیخ کو للکار رَہا تھا۔۔۔کہ،، اگر ہے ہمت تو میرے خیال سے نطریں چُرا کر دِکھاوٗ۔۔۔۔۔نماز کے بعد اِمام مسجد نے  شیخ صنعان سے اِس خواہش کا اِظہار کیا کہ،، مجھے بھی چند دِن کی مہمانی کا شرف بخشیں۔۔۔ شیخ صنعان کے کچھ کہنے سے قبل ہی فرید نے  اِمام صاحب سے معذرت کرتے ہُوئے بتایا کہ،، تبوک کے مضافات میں آج ہمارا آخری دِن تھا۔ کل  تمام قافلہ شیخ کی معیت میں بیت المقدس کی جانب کُوچ کرجائے گا۔۔۔۔ شیخ صنعان نے ناگواری کے عالم میں فرید کی جانب دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔ ہمیں کب جانا ہے۔ اُور کب کُوچ کرنا ہے۔ یہ بات ہم تُم سے بہتر جانتے ہیں۔۔۔ اِمام صاحب جب اتنی محبت سے رُکنے کیلئے کہہ رہے ہیں ۔ تو ہم بھلا کسطرح اِنکا دِل توڑ کر جاسکتے ہیں۔۔۔شیخ کے جواب سے اِمام صاحب کے چہرے پر خوشی کے تاثرات اُبھر آئے۔جبکہ فرید نے حیرت و شرمندگی سے اپنی گردن نیچے جھکالی۔۔۔ شیخ صنعان دِل میں یہ سُوچ  کر خُوش ہُورَہا تھا۔ کہ،، اِس بہانے دیدار یار کے مواقع بڑھ گئے ہیں۔

رات کے کھانے پر گفتگو کے دوران شیخ صاحب نے باتوں ہی باتوں میں اِمام صاحب سے مسجدسے ملحق لوگوں کی معلومات حاصل کرلی تھی۔۔۔ شیخ صاحب کو یہ بھی معلوم ہُوچکا تھا۔کہ مسجد کے ساتھ جس مکان کی چھت پر انہوں نے اُس ہُوشربا نازنین کو دیکھا تھا۔۔۔ وُہ ایک یہودی کا مکان ہے۔جسکی بیٹی تریسا کے حُسن کی مثال تبوک کے گرد و نواح میں کہیں موجود نہیں ہے۔۔۔

دُوسرے دِن شیخ صنعان فجر سے مغرب تک مینار پر چڑھ چڑھ کر اِس اُمیدپر آذان دیتے رہے۔ کہ،، شائد وُہ مہ جبین   کہ،، جس نے شیخ صنعان جیسے  زاہد و دَرویش کے دِل میں طُوفان برپا کردیا ہے۔ اپنی ایک جھلک دِکھانے کیلئے  آج پھر چھت پر چلی آئے۔۔۔۔ لیکن بسا خاک آرزو۔ وُہ نہیں آئی۔۔۔ عشا کی نماز اداکرنے کے بعد شیخ صنعان کی حالت قابل دِید تھی۔ ۔۔ دِل کی تکلیف اگر دِل میں ہی دَبی رِہ جائے تو دِل میں مِثل ناسُور زَخم پیدا ہُوتا چلا جاتا ہے۔ جُو نہ صِرف  سکون چھین لیتا ہے۔ بلکہ غم کی کیفیت چہرے سے بھی عیاں ہُونے لگتی ہے۔۔۔ یہی حال شیخ صنعان کا بھی تھا۔ بُرے بُرے خیالات دِل میں وساوس کو جنم دے رَہے تھے۔۔۔

آج پہلی مرتبہ شیخ صنعان کے دِل میں یہ خاہش بھی پیدا ہُورہی تھی۔کہ،، کاش بُزرگی کا یہ لبادہ میں نے  نہ اُوڑھا ہُوتا۔۔۔ اے کاش ٹریسا زندگی کے اِس مُوڑ پر ملنے کے بجائے جوانی میں مِل گئی ہُوتی۔۔۔ اُورکبھی یہ خُوف دِل میں ڈر کو مزید بڑھادیتا کہ،، یہ سُوز و آتش ایک طرفہ ہے۔۔۔ کیا ٹریسا بھی مجھے  میری ڈھلتی عُمر  کے باوجود قبول کرپائے گی۔۔۔ پھر کوئی گھٹی گھٹی سی آوازسُنائی دیتی۔۔۔ مَرد کبھی بُوڑھا نہیں ہُوتا!!! وُہ میری تڑپ میری جستجو دیکھ کر ضرور میری محبت کا جواب محبت سے دیگی۔۔۔۔جُوں جُوں سوال و جواب کا یہ سلسلہ بڑھ رَہا تھا۔۔۔ شیخ صنعان کو ایک ایسے ساتھی کی ضرورت محسوس ہُورہی تھی۔ جو اُسکی عُمر اُور اُسکے رُتبے سے قطع نظر کرتے ہُوئے، دُوست بن کر اُسکے اِحساسات کو سمجھ سکے اُور اُسے کوئی مفید مشورہ دے سکے۔۔۔

شیخ صنعان نے جتنا بھی اِس معاملے میں سُوچا اُسے شیخ فرید اُور شیخ محمود سے ذیادہ محبت کرنے والے اپنے مُریدین میں نظر نہ آئے۔۔۔ حالانکہ عقل بار بار سمجھاتی رَہی کہ،، اپنی عزت کو یُوں اپنی اُولاد جیسے مُریدین کے سامنے کھونا مُناسب نہیں۔۔۔ پھر اندرسے ایک صدا آئی۔ آج نہیں تو کل یہ راز سب کے سامنے کُھل ہی جانا ہے۔۔۔ بھلا عشق بھی کبھی چھپانے سے چُھپا ہے۔۔۔ یہ تو جنگل میں لگی آگ کی طرح ہُوتا ہے۔ جسے جتنا بُجھانا چاہُو۔یہ مزید بھڑکتی چلی جاتی ہے۔۔۔دِل کی دلیلوں نے  عقل کی ایک نہ چلنے دِی۔۔۔۔ یہاں تک کہ،، شیخ صنعان نے  شیخ فرید اُور شیخ محمود   کوخلوت میں طلب کرلیا۔۔۔

شیخ صنعان نے لمبی چُوڑی تمہید باندھنے کے بجائے صاف صاف  لفظوں میں اپنے دِل کی کیفیت اِن دُونوں مُریدین پر ظاہر کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ میرے بچوں ! میں جانتا ہُوں کہ،، یہ سب کچھ جان کر تُمہارے آبگینہ دِل کو شدید ٹھیس پُہنچے گی۔ لیکن   اِس حقیقت سے مفر بھی نہیں ہے۔  کہ،، میں جب تک ٹریسا کو نہ پالُوں تب تک بیت المقدس کی جانب ایک بھی قدم نہیں بڑھا سکتا۔۔۔ کیوں کہ جب تک  میرا دِل تبوک میں اُلجھا رہے گا۔۔۔ نہ میں خُود دلجمعی سے عبادت کرپاونگا۔۔۔ اُور نہ ہی  میرے وعظ تُمہاری بہتر تربیت کے ضامن ہُونگے۔۔۔ اِس لئے میں اِس معاملے میں تُم سے مشاورت  و اِمداد کا سُوال کرتا ہُوں۔ لیکن میں تُم پر کوئی جبر نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ اگر تُم میری مدد سے انکار کرنا چاہو۔۔۔ تو بے شک تمام قافلے کو لیکر بیت القدس کی جانب کُوچ کرجاو۔ میں کسی قسم کا اعراض نہیں کرونگا۔۔۔ لیکن میں تب تک تبوک سے نہیں جاونگا۔کہ،، جب تک مجھے میری مُرادوں کا گُوہر نہ مِل جائے۔ اتنا کہنے کے بعد شیخ صنعان بچوں کی طرح سسکیاں بھرنے لگا۔

شیخ محمود اُورشیخ فرید کا شُمار شیخ صنعان کے اُن مُریدوں میں ہُوتا تھا۔ جو اپنے مُرشد کی ابرو کے ایک اِشارے پر اپنی جان تک نچھاور کرسکتے تھے۔۔لیکن شیخ صنعان کی خُواہش نے اِن دُونوں کو عجیب اِمتحان میں مُبتلا کردیا تھا۔۔۔ شیخ صنعان کی صحبت نے اِن دُونوں مُریدین کے قلوب کو دمکتے ہُوئے آئینے کی مِثل اُجلا کردیا تھا۔۔۔ دیدار محبوب کے جَلوے بِکھرنے کو ہی تھے۔کہ،، رَہنما کی آنکھ سے ہی رُوشنی رُخصت ہُوگئی۔۔۔ وُہ دُونوں سُوچ بچار کیلئے صبح تک کی مہلت لیکر اپنے کمرے میں چلے آئے تھے۔ اُور اب ایک دُوسرے سے گلے لگ کر پُھوٹ پُھوٹ کر رُورہے تھے۔ شیخ محمود شیخ فرید سے  رُوتے ہُوئے استفسار کرَہا تھا۔۔۔ فرید  ہمارے مُرشد کو کس کی نظر لگ گئی۔۔۔؟؟؟ وُہ تو ہمیشہ عورت  کو شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار کہتے تھے۔ وُہ تو جنس مُخالف  کے ترکش سے ہمیں بچاتے آئے تھے۔۔۔ وُہ خُود کیسے اِس فتنے کے شر رسے خاکستر ہُوسکتے ہیں۔۔ وُہ جنہیں کبھی حُوران خلد کی بھی طلب نہ رہی ۔ وُہ ایک ناری کی زُلف کے اَسیر کیسے ہُوسکتے ہیں۔۔۔؟
۔جاری ہے

انشاٗ اللہ میری بھرپور کوشش ہے کہ،، اِس واقعہ کی تمام اقساط بغیر کسی تعطل کے جلد از جلد پیش کردوں ۔ آپ سب بھی دُعا فرماتے رہیں۔کہ،، صحت و عافیت کیساتھ تکمیل ہُوجائے۔

3 comments:

  1. Asslam o Alykuum
    BHAI bohat sabaq amoze our dil chasp waqia hai. ALLAH KAREEM ham ko APNAY PIYARON ki Sachchi Muhabbat ata karay. our AAP k ilm o amal our Rizq o umer main khob khob IZAFA Farmayay.
    JZAK ALLAH.

    ReplyDelete
  2. SHIDDAT SAY INTIZAR THA MILNAY KA AAP SAY
    NA HI KOI BAAT HOI NA HI MULAQAT HOI.

    ReplyDelete
  3. اُویس بھائی شائد آپکو یقین نہ آئے مگر مجھے بھی واپسی پر یہی افسوس رَہا کہ آپ سے مُلاقات نہ ہُوسکی

    ReplyDelete