bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 6 June 2015

جال۔ در ۔ جال۔ قسط ١٣۔ (اِقرار جُرم پہ اِنعام)۔



جال۔ در ۔ جال۔ قسط ١٣۔ (اِقرار جُرم پہ اِنعام)۔



گُذشتہ سے پیوستہ۔

توبہ اُور قربانی میں شرط نہیں رکھی جاتی کرامت صاحب بے یقینی کی دلدل سے یقین کی رسی ہی تُم کو باہر نِکال سکتی ہے۔ تُم ایک قدم بڑھاکر تُو دیکھو پھر دیکھنا وہ کریم کس طرح تُمہاری مدد کے راستے کھولتا ہے۔ بیٹی بھی مِل جائے گی۔ اُور رَب کی رضا بھی۔ مگر فیصلہ تُمہی کو کرنا ہے البتہ میں تُمہیں یقین دِلاتا ہُوں کہ اِس قربانی کے بعد آپ بے روزگار نہیں رہیں گے۔ فرقان میاں کی نئی فیکٹری میں آپ جیسے تجربے کار لوگوں کی اشد ضرورت ہے۔ اُور جہاں تک بچی کی صحت کا مُعاملہ ہے۔ تو بزرگوں کی نعلین کے صدقے میں ہم ایک ایسی دوا جانتے ہیں جو اِس مرض میں اکسیر کا مقام رکھتی ہے۔ آپ بچی چند دِنوں کیلئے ہمارے گھر چھوڑ جائیے گا۔ اللہ کریم نے چاہا تو صحت مِل جائے گی۔ کیونکہ شِفا اُسکے حُکم میں ہے دوا تُو صِرف بہانہ ہے۔ حسان صاحب نے کرامت صاحب کی تشویش کا جواب دیتے ہُوئے کہا۔

پھر آپ ہی توبہ کرادیجئے۔ تاکہ میری نئی زندگی کا آغاز آپ ہی کے آستاں سے ہُوجائے۔ کرامت صاحب کا جُملہ مکمل ہُوتے ہی حسان میاں نے وجد میں باآواز نعرہ تکبیر بُلند کردیا۔

اَب مزید پڑھیئے۔

کرامت صاحب کی توبہ عجب رنگ دِکھا رَہی تھی۔ اُنکی چودہ برس کی صاحبزادی نُوشابہ حیرت انگیز طُور پر بُہت تیزی کیساتھ رُو بَصحت ہُورہی تھی۔ بَچی کی صحت دیکھ کر فرقان کو یُوں محسوس ہُورہا تھا جیسے گُویا قُدرت کرامت صاحب کی تُوبہ کی منتظر ہُو۔ یہاں کرامت صاحب نے توبہ کی چادر سے سر کو ڈھانپا اُور وہاں حَسَّان صاحب کی سادہ سی دوائی نے اپنا رَنگ دِکھانا شروع کردیا۔

اِس مرتبہ جب شہریار مجددی کی آمد ہُوئی تُو اُنہوں نے فرقان کو خُوشخبری سُنائی کہ وہ اپنا تمام بِزنس سمیٹ کر ہمیشہ کیلئے پاکستان آچکے ہیں۔ اُور اب وہ فرقان کی مُعاونت کیلئے ہر گھڑی دستیاب ہُونگے۔ جب فرقان نے کرامت صاحب کی توبہ اُور اُنکی صاحبزادی کا واقعہ سُنایا تُو شہریار مجددی کی آنکھیں بھی نم ہُوئے بِنا نہیں رِہ پائیں۔ فرقان نے بات کرتے ہُوئے شہریار مجددی کو یہ بھی بتایا کہ میں نے حَسان صاحب کی ایما پر آپکی اِجازت کے بغیر کرامت صاحب کو فیکٹری میں منیجر کی پُوسٹ آفر کردی ہے۔ اَب اگر آپ اُنکے مُشاہرے کی رقم تجویز کردیں تو اُنہیں باقاعدہ فیکٹری کی جانب سے منیجر کی مُلازمت کی آفر کردی جائے۔۔۔۔!

فرقان کے خاموش ہُوتے ہی شہریار مجددی نے سپاٹ لہجے میں دریافت کیا،، فرقان صاحب آپکے خیال میں اُنکی کتنی تنخواہ ہُونی چاہیئے۔۔۔۔؟ شہریار مجددی کے لہجے سے ایک لمحے کیلئے فرقان کو ایسا محسوس ہُوا جیسے شہریار مجددی کو اُسکی بات پسند نہ آئی ہُو۔۔۔۔۔۔ فرقان نے جھجکتے ہُوئے کہا ،، ویسے تُو کرامت صاحب کا اِس فیلڈ میں کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن میرے خیال میں اُنکی تنخواہ کم از کم پچاس ھزار کے قریب تُو ہونی ہی چاہیئے۔ اُور چونکہ اِس فیصلے میں مجھے آپ سے مشاورت کا موقع نہیں مِلا۔ اِس لئے اگر آپ کو اعتراض نہ ہُو تو میں چاہوں گا کہ جب تک کرامت صاحب اِس فیلڈ میں مہارت حاصِل نہیں کرلیتے ۔ اُنہیں یہ تنخواہ میرے اکاؤنٹ سے ادا کی جائے۔

میرا بھی یہی خیال ہے کہ جب تک وُہ تجربہ حاصِل نہیں کرلیتے۔ اُنہیں فیکٹری سے تنخواہ نہ دِی جائے۔ شہریار مجددی کے جُملے سے فرقان کے اندیشے کو تقویت حاصِل ہُوگئی ۔۔۔۔ حالانکہ فرقان کو اُمید تھی کہ شہریار مجددی اُسکی اِس بات پر برہمی کا اِظہار کرے گا کہ وہ کیوں تنہا کرامت صاحب کی تنخواہ کا بوجھ برداشت کرے گا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔جبکہ کرامت صاحب اگرچہ غیر تجربہ کار ہیں۔ مگر مُلازمت تُو وہ فیکٹری میں ہی کریں گے۔ لہذا تنخواہ بھی فیکٹری کے مشترکہ اکاونٹ سے ادا کی جانی چاہیئے۔ لیکن شہریار مجددی نے اُسکے فیصلے کو ایک لمحے میں قبولیت بخش کر اُسے ورطہِ حیرت میں ڈال دِیا تھا۔۔۔۔۔!

کیا سُوچ رہے ہیں فرقان میاں۔۔۔۔؟ کہیں میرے متعلق کِسی بدگُمانی میں تُو مُبتلا نہیں ہُوگئے آپ۔۔۔۔۔؟ شہریار مجددی نے فرقان کو سُوچ میں ڈوبا دیکھ کر سوال کیا۔۔۔۔ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں فرقان نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجانے کی کوشش کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔!شہریار مجددی نے ہنوز سنجیدگی سے فرقان کی جانب دیکھتے ہُوئے سلسلہ کلام دوبارہ شروع کرتے ہُوئے کہا۔۔۔اَرے جناب میں تُو یہ کہنا چاہتا تھا۔ کہ آپکا فیصلہ بالکل دُرست ہے کہ جب تک فیکٹری اِسٹارٹ نہیں ہُو جاتی۔ اُنکی تنخواہ کی مد میں پچاس ھزار روپیہ آپ دے دیا کریں۔ اُور چُونکہ وہ بُہت بڑی قربانی دے کر آئے ہیں۔ اُور آپ نے اُنہیں ہمارے مُرشِد و مربی کی خُواہش کے احترام میں اِس فیکٹری میں جگہ دِی ہے ۔ تو لِہذا اِس سعادت مندی سے محروم مجھے بھی نہ کیجئے گا۔ اُور پچاس ھزار رُوپیہ میری جانب سے بھی اُنہیں پیش کردِیا کیجئے گا۔ تاکہ اُنہیں کم از کم اپنے کریم آقا کی نسبت سے ہم دُونوں مِلکر سالانہ ۱۲ لاکھ روپیہ پیش کرسکیں۔کیونکہ ایسی قربانی دینا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں لیکن جِسے اللہ کریم توفیق عطا فرمادے۔۔۔ اِسلئے ایسے عظیم انسان کو کم از کم اتنا تُو دینا ہی چاہیئے کہ اُنہیں اپنے کسی فیصلے پر پچھتاوا نہ ہُو۔ شہریار مجددی کی خُوبصورت سُوچ کی وجہ سے فرقان کا مُرجھایا ہُوا چہرہ ایک مرتبہ پھر سے کِھل اُٹھا۔

کرامت صاحب کی صاحبزادی نوشابہ ۴۰ دِن تک حَسَّان صاحب کی صحبت میں رِہ کر ایسی فیضیاب ہُوئی کہ ڈاکٹرز بھی نوشابہ کی رپورٹ دیکھ کر حیران ہُوگئے۔ یہاں تک کے مُلک کے تین مشہور و معروف ڈاکٹرز نے بھی حَسَّان صاحب کی کرامت کے سبب اُنکے سامنے زانوئے تلمذ طے کردئیے۔

کرامت صاحب نے فرقان اُور شہریار مجددی کی کافی منت سماجت کی کہ اُسے اسقدر زیادہ تنخواہ نہ دِی جائے۔ کیونکہ وُہ خُود کو اس مراعات کا اِہل نہیں سمجھتا ہے ۔ لیکن فرقان و شہریار مجددی کے آگے اُسکی ایک نہ چل سکی۔ کرامت صاحب یہ بات خُوب اچھی طرح سے جان چُکے تھے کہ فرقان و شہریار مجددی صاحب کی اُن پر انعامات کی بارِش بِلاوجہ نہیں تھی۔ چُونکہ فرقان و شہریار مجددی دُونوں کی زندگی میں ہی حَسَّان میاں کے حُکم و پسندکو وہی اہمیت حاصِل تھی۔ جو ایک نہایت فرمانبردار اُولاد کے نزدیک اپنے والدین کے اِحکامات و خُواہش کی ہُوتی ہے۔۔۔۔! اُور اب یہی آتشِ عشق کا سُوز کرامت صاحب اپنے سینے میں بھی چند دِنوں سے مِحسوس کرنے لگے تھے۔

کرامت صاحب چند دِنوں سے ایک بات اُور بھی مِحسوس کررہے تھے۔ اُور وُہ یہ کہ جب سے اُنہوں نے حَسَّان صاحب کے ہاتھ پر تُوبہ کی تھی۔ اُن کے دِل میں ہمہ وقت سکینہ رہنے لگا تھا۔ جہاں پہلے اُن کی بیقراری اُنہیں رات میں کئی بار جاگنے پر مجبور کردیتی تھی۔ اب رات کو ایک پُرسکون نیند اُنکی منتظر رہنے لگی تھی۔ اگرچہ وہ اب باقاعدگی سے آذان فجر سے ایک گھنٹہ قبل تہجد کیلئے اُٹھ جایا کرتے تھے۔ مگر چند گھنٹوں کی یہ نیند بھی اُنہیں ذِہنی اُور جسمانی تھکن کے دیس سے بُہت دُور لے آئی تھی۔ اُنہیں فرقان و شہریار کی مُحبت کا قرض چُکانے کی ایک تدبیر سُجھائی دِی۔ اُور اُنہوں نے چند ایسے لُوگوں کو شہر میں ڈھونڈ نِکالا۔ جو بِزنس ایڈمنسٹریشن میں اِنفرادی اُور نُمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ وُہ شام کو فیکٹری سے فارغ ہُونے کے بعد ایسے اِحباب کی بزم میں ایک تا دو گھنٹے کیلئے پُہنچ جاتے۔ اُور وہاں پُہنچ کر اپنی خُودی بُھلاکر ایک سعادت مند طالب کا رُوپ دَھار لیتے۔جیسے خالی جام مے کی آرزو میں جُھکا چلا جاتا ہو۔

پھر خُدا کے خاص فضل سے وُہ دِن بھی آن پُہنچا کہ ،، جسکے انتظار میں فرقان نے آٹھ ماہ تک رات و دِن کا اِمتیاز بُھلا کر مُسلسل مِحنت کی تھی۔ پیپر مِل کا اِفتتاح فرقان اُور شہریار مجددی کی شدید خُواہش پر حَسَّان صاحب نے اپنے دست مُبارک سے کیا۔ تمام شہر سے کاروباری، مذہبی ، اُور روحانی سلسلے سے منسلک افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔ فرقان اُور شہریار ہر ایک آنے والے سے مبارکباد و دُعا وَصول کررہے تھے۔ بے شُمار لوگ حَسان میاں کے ارد گِرد دُعا و برکت کے حُصول کیلئے موجود تھے ۔ شہریار مجددی کے مُعزز گھرانے کے کافی افراد بھی اِس خُوشی کےمُوقع پر مُوجود تھے۔ مگر فرقان کی نِگاہیں بار بار فیکٹری کے صدر دروازے کی جانب اُٹھ رہی تھیں۔ اُسکی نِگاہوں کی تشنگی حَسَّان میاں سے پُوشیدہ نہ رہ سکی۔ جب بار بار فرقان کی نِگاہیں بے چینی سے مین گیٹ کا طواف کرنے لگیں تُو حَسَّان صاحب سے نہ رَہا گیا۔ وُہ فرقان کے نزدیک تشریف لا کر گُویا ہُوئے،، فرقان میاں جسکے انتظار میں آپکی نظریں دروازے پر جمی ہیں وہ تُو کب کے مِحفل میں تشریف لاچُکے ہیں۔۔۔۔۔۔!

(جاری ہے)

مُحترم قارئین کرام ،، آپ سب سے دُعاؤں کیلئے ملتمس ہُوں۔ مجھے یقین ہے کہ رمضان المبارک کی اِن بابرکت ساعتوں میں آپکے ہاتھوں کی بُلندی کے دوران میں آپکی دعاؤں کا حِصہ ضرور رہا ہُونگا۔

پلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا

0 comments:

Post a Comment